پاکستان کے لئے عالمی مالیاتی فنڈ کے مشن کے سربراہ ارنسٹو رامیریز نے ایک بیان میں کہا ہے، کہ پاکستانی حکام کے ساتھ ہونے والی ملاقاتوں میں سٹاف کی سطح پر ان پالیسیوں اور اصلاحات پر اتفاق ہو گیا ہے، جو دوسرے جائزے کے بعد طے کی گئى ہیں۔
آئى ایم ایف کے ترجمان گیری رائس کا کہنا ہے کہ اگلے مرحلے میں اپریل کے آغاز میں ہونے والے آئى ایم ایف بورڈ اجلاس میں اس کی حتمی منظوری دی جائے گی جس کے بعد پاکستان کو ساڑھے چار سو ملین ڈالر کی اگلی قسط جاری کی جا سکے گی۔
آئى ایم ایف کے وفد نے پاکستان میں تین سے تیرہ فروری تک اس تین سالہ پروگرام کا دوسرا جائزہ مکمل کیا ہے۔ جس کے تحت پاکستان کو آئى ایم ایف سے چھ ارب ڈالر کی رقم ملنی ہے۔ آئی ایم ایف کا یہ پروگرام گزشتہ سال جولائى میں شروع ہوا تھا،
اس سے پہلے اپنےدس دن کے جائزہ دورے کے بعد آئى ایم ایف نے کہا تھا کہ دسمبر دوہزار انیس تک پاکستان نے معاشی اور مالیاتی اصلاحات اور معاشی پالیسیوں کے حوالے سے قابل ذکر کارکردگی دکھائى ہے۔
کیا آئی ایم ایف سے مزید رقم ملنے کا امکان پاکستانی معیشت کے لئے ایک مثبت خبر ہے؟ ۔۔۔۔۔ماہر معیشت ڈاکٹر ندیم الحق نے وی او اے سے بات کرتے ہوئے آئى ایم ایف پروگرام اور ریفارمز پالیسی پر تنقید کرتے ہوےٴ کہا، کہ اس پروگرام کے تحت پاکستان میں کوئى ریفارمز نہیں ہو رہے اور نہ ہی ہو سکتے ہیں کیونکہ آئى ایم ایف اور پاکستان صرف معاشی اعدادوشمار کو ملا رہے ہیں اور حقیقی ریفارم سے اس کا کوئى تعلق نہیں ہے۔
ریوینو کے اہداف پر وائس آف امیریکہ سے بات کرتے ہوئے ڈارکٹر ندیم کا کہنا تھا کہ گرتی ہوئى معیشت سے مزید ٹیکس جمع نہیں کیا جا سکتا۔ حکومت ڈنڈے کے زور پر پیسے ہتھیا تو سکتی ہے لیکن سسٹم میں مزید ٹیکس کا بوجھ اٹھانے کی سکت نہیں۔ آئى ایم ایف کے حالیہ ریویو میں ٹیکس اہداف پر پاکستان کو مزید سخت اقدامات کی باتیں میڈیا میں رپورٹ ہو تی رہی ہیں۔
پاکستان کی معیشت اس وقت ایک کڑے دور سے گزر رہی ہے، مہنگائى کی سطح گزشتہ کئی برسوں کی بلند ترین سطح پر ہے اور ماہرین کی جانب سے پاکستان کی معاشی ترقی میں مزید کمی کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے، جس کے باعث ریوینیو کے اہداف پورے کرنے مزید مشکل ہو سکتے ہیں۔۔دوسری جانب کرونا وائرس کے خطرے سے معیشت پر مزید بوجھ پڑ سکتا ہے۔
فیڈریشن آف پاکستان چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر میاں انجم نثار کے مطابق چین پاکستان کے بڑے تجارتی پارٹنرز میں سے ہے، اور تیل اور خوراک کے علاوہ تقریبا ہر چیز چین سے درآمد کی جاتی ہے۔ اگر کورونا کے باعث خام مال یا باقی کاروباری اشیاء کے پاکستان پہنچنے میں تاخیر ہوتی ہے تو یہ پہلے سے دباؤ کا شکار پاکستانی معیشت کے لیے مزید دباؤ کا باعث ہو سکتا ہے۔