پاکستان کی حکومت اور بین الاقوامی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) وفد کے درمیان مجوزہ بیل آؤٹ پیکج کی تفصیلات طے کرنے کے لئے تکنیکی سطح کے مذاکرات اسلام آباد میں جاری ہیں۔
آئی ایم ایف مشن 10 روز تک پاکستانی حکام کے ساتھ مذاکرات میں تکنیکی اور پالیسی سطح کے معاملات طے کرے گا جس کے بعد 6 سے 8 ارب ڈالر کے بیل آوٹ پیکج پر معاہدہ طے پا جانے کا امکان ہے۔
مذاکرات کے پہلے مرحلے میں پاکستانی حکام اور آئی ایم ایف کے درمیان معاونت کے پروگرام پر تکنیکی بات چیت ہو رہی ہے جس میں آئی ایم ایف مشن کی سربراہی ارنستو ریگو اور پاکستانی وفد کی قیادت وزیر اعظم کے مشیر خزانہ حفیظ شیخ کر رہے ہیں۔
مذاکرات کے دوسرے مرحلے میں پالیسی سطح کے معاملات پر بات چیت متوقع ہے، جس میں پاکستان کو فراہم کئے جانے والے قرضے کے حجم اور معاشی اصلاحات پر اتفاق کیا جائے گا۔
آئی ایم ایف مشن پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان کی آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹر کرسٹن لیگارڈ سے ہونے والی ملاقات کے بعد اسلام آباد پہنچا ہے جو کہ ’بیلٹ اور روڈ‘ سربراہ کانفرنس کے موقع پر بیجنگ میں ہوئی۔
غیر ملکی قرضوں کی واپسی اور سرکاری ادائیگیوں کے بوجھ سے پریشان پاکستان کی حکومت رواں سال کے مالی بجٹ سے پہلے آئی ایم ایف سے قرضے کا حصول چاہتی ہے۔
وزارت خزانہ حکام کے مطابق مذاکرات کی توجہ مالیاتی پالیسی اور معاشی اصلاحات پر مرکوز ہے جس میں پاکستان کی جانب سے آئی ایم ایف وفد کے ساتھ ٹیکس اصلاحات، آمدن بڑھانے کے حکومتی اقدامات اور توانائی شعبے میں تجاویز کا تبادلہ کیا گیا۔
سرکاری حکام کے مطابق اسلام آباد آیا ہوا آئی ایم ایف وفد تکنیکی سطح کے مذاکرات میں وزارت خزانہ، سٹیٹ بینک، فیڈرل بورڈ آف ریونیو اور پٹرولیم، پانی و بجلی اور نجکاری کمیشن کی وزارتوں کے ساتھ روڈ میپ اور اہداف کو طے کیا جائے گا۔ جبکہ دوسرے مرحلے میں پالیسی سطح کے مذاکرات ہوں گے جس میں معاشی بحالی کے جامع پلان اور قرضے کے حجم کو حتمی شکل دی جائے گی۔
سرکاری حکام نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا ہے کہ مذاکرات کا یہ حتمی دور ہوگا جس میں پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان 6 سے 8 ارب ڈالر کے تین سالہ پروگرام پر اتفاق ہوجائے گا۔
پاکستانی حکام کو امید ہے کے آئی ایم ایف مشن کے اس دورہ اسلام آباد کے دوران بیل آؤٹ پیکج کے تمام پہلوؤں پر اتفاق کے بعد اسٹاف لیول ایگریمینٹ ہوجائے گا جس کے بعد اسے حتمی منظوری کے لئے آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ کو بجھوایا جائے گا۔ آئی ایم ایف کا ایگزیکٹو بورڈ جون کے آخر یا جولائی کے آغاز پر پاکستان کے لئے بیل آؤٹ پیکج کی منطوری دے گا۔
اس سے قبل پاکستان کے سابق وزیر خزانہ اسد عمر نے واشنگٹن میں آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات کے بعد بتایا تھا کہ بیل آؤٹ پیکج پر اصولی اتفاق ہوگیا ہے اور یہ کہ معاشی اصلاحات کے لئے یہ پیکج سود مند ثابت ہوگا۔
معاشی ماہرین کا خیال ہے کہ آئی ایم ایف پروگرام بنیادی طور پر پاکستان کے معاشی نظام میں پیدا شدہ نقائص کو دور کرنے پر زور دے گا۔ سابق سیکرٹری خزانہ ڈاکٹر وقار مسعود کے مطابق آئی ایم ایف پروگرام کی نوعیت مالیاتی اور تجارتی خسارہ میں کمی لانا ہوگی۔ ان کے مطابق، رواں مالی سال کے پہلے نو ماہ میں ٹیکس وصولیوں کی شرح میں محض دو فیصد اضافہ ہوا ہے جس سے لگتا ہے کہ رواں سال کے اختتام پر مالی خسارہ 7.6 فیصد ہوجائے گا۔
ماہر معیشت قیصر بنگالی کہتے ہیں کہ ملکی معیشت کے دو بڑے مسئلے ہیں، ایک ٹیکس وصولیاں کم ہیں اور اخراجات زیادہ ہیں دوسرا برآمدات اور درآمدات میں عدم توازن کی وجہ سے تجارتی خساہ ہے۔ ان کے مطابق، آئی ایم ایف چاہے گی کہ پاکستان کی معیشت میں بہتری کے لئے حکومت سرکاری اثاثے بیچے، بجلی گیس اور پٹرول کی قیمتیں بڑھائے، نئے ٹیکس کا نفاذ کرے اور سبسڈی کم کی جائے۔
معاشی ماہرین کا خیال ہے کہ آئی ایم ایف اپنے پروگرام میں پاکستان کے خسارے میں ڈوبے سرکاری اداروں کی نجکاری، مالیاتی اور جاری کھاتوں کا خسارہ کم کرنا، برآمدات میں اضافہ، اخراجات میں کٹوتی، گردشی قرضوں کا حجم کم کرنا، سبسڈی میں کمی، ٹیکس اصلاحات اور اس کے دائرے میں اضافے کے اقدامات چاہتا ہے۔
اس کے علاوہ آئی ایم ایف روپے کی قدر میں مزید کمی اور شرح سود میں اضافہ بھی تجویز کر سکتا ہے۔
پاکستان نے آخری مرتبہ آئی ایم ایف سے 2013 میں آئی ایم ایف کے ساتھ 6 ارب 60 کروڑ ڈالر کا مالیاتی قرض حاصل کیا تھا۔