ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کی سالانہ میٹنگز ان دنوں واشنگٹن میں ہور ہی ہیں۔ ان میٹنگز میں یہ دونوں عالمی مالیاتی ادارے غیر پائیدار حکومتوں کی مدد، دنیا کے کچھ علاقوں میں عدم استحکام اور دیگر عالمی چیلنجز سے نمٹنے کے طریقہ کار پر غور کریں گے۔یہ اجلاس پاکستان سمیت ان تمام ممالک کے لیے خاصی اہمیت رکھتے ہیں جو اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے ان سے قرضے لیتے ہیں۔
جاپان میں تباہ کن زلزے ،سونامی اور پھر جوہری پلانٹ میں حادثہ اور دوسری طرف عرب دنیا میں سیاسی تبدیلیاں اور انتشار ایسے واقعات ہیں جن کا سایہ واشنگٹن میں ہونے والے ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کی اجلاسوں پر چھایا رہے گا۔ واشنگٹن میں قائم ایک غیر سرکاری ادارے پیٹرسن انسٹی ٹیوٹ آف انٹرنیشنل اکنامکس کے دپٹی ڈائریکٹر ٕمارکس نولینڈ کا کہنا ہے کہ ان حالیہ واقعات پر کافی توجہ دی جائے گی۔
ان کا کہناتھا کہ اجلاسو ںیں جاپان اور مشرق وسطیٰ کے واقعات توجہ کے حامل ہوں گے کیونکہ ان علاقوں کی صورتحال نہ صرف ان ممالک کے اپنے عوام بلکہ ممکنہ طور پر پوری دنیا کے حالات پر اثر انداز ہو سکتی ہے۔
ان اثرات میں سے ایک تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہے جو ایک اور عالمی معاشی بحران کو جنم دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ عالمی معیشت میں اس سال معتدل رفتار سے بہتری کی توقع ہے مگر آئی ایم ایف کے سربراہ ڈومنیک سٹراس کان کہتے ہیں کہ مغربی ممالک کی معیشتوں کی نسبت چین اور کئی دوسرے ترقی پذیر ممالک میں زیادہ تیزی سے ترقی ہو رہی ہے۔
پاکستان کا ایک وفد بھی ان اجلاسوں میں شرکت کررہا ہے۔واشنگٹن کے ایک تھنک ٹینک دی اٹلانٹک کونسل سے وابستہ تجزیہ کار شجاع نواز کا کہناہے کہ پاکستان کے لئے یہ اجلاس بہت اہمیت رکھتے ہیں۔
ماہر معاشیات زبیر اقبال کا خیال ہے کہ پاکستان کو مستقبل میں درآمدی اخراجات پورے کرنے کے لئے اپنی برآمدات پر توجہ دینی ہوگی۔
ایسی پالیسیوں کے اثرات پاکستان کے عام لوگوں پر ہونگے۔اور ورلڈ بینک کے صدر رابرٹ زولک ایک نئے معاشرتی سمجھوتے کی بات کر رہے ہیں ۔ ایک ایسا سمجھوتہ جس کے تحت عام لوگوں کی زندگیوں پر اثرانداز ہونے والا حالات کومدنظر رکھتے ہوئے عالمی معاشی پالیسیاں ترتیب دی جائیں۔
انہوں نے کہا کہ قرض لینے والے ممالک کے لئے ہمارا پیغام یہ ہے کہ چاہے آپ کا جو بھی سیاسی نظام ہو، آپ اچھے نظام حکومت اور عوام کی شرکت کے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتے۔
رابرٹ کہتے ہیں کہ کوئی اقدام نہ کرنا اتنا ہی خطرناک ہے جتنا کہ کوئی غلط قدم اٹھانا۔ انہوں نے مشرق وسطیٰ کی حکومتوں پر زور دیا کہ وہ جلد اصلاحات نافذ کریں تاکہ روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوں ۔آئی ایم ایف اقتصادی شعبوں میں استحکام اور امیر اور غریب طبقوں میں فرق کو کم کرنے کے لئے اصلاحات پر زور دے رہا ہے۔