معاشی امور کے ماہر ڈاکٹر اسد سعید نے کہا ہے کہ کئی حوالوں سے پاکستان کی معاشی کارکردگی مناسب رہی ہے، جِس میں آئی ایم ایف کے ساتھ پچھلےمعاہدے کے وقت اور آج، بجٹ خسارے کی صورتِ حال اور مہنگائی کی شرح میں کسی حد تک کمی آئی ہے۔
اُنھوں نے یہ بات اتوار کو ’وائس آف امریکہ‘ کے پروگرام ’اِن دِی نیوز‘ میں گفتگو کرتے ہوئے کہی ، جو وزیرِ خزانہ عبد الحفیظ شیخ کی سربراہی میں پاکستانی وفد کی آئی ایم ایف اور عالمی بینک کے موسمِ بہار کے سالانہ اجلاسوں میں شرکت، اور امریکی عہدے داروں سے ملاقات کے پسِ منظر میں ہوئی۔
ڈاکٹر اسد سعید کا کہنا تھا کہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ(آئی ایم ایف) کےساتھ معاہدے کے تحت فنڈ کو توانائی پرسبسڈی ، بجلی کے نرخوں میں اضافےاورمحصولات میں خاطر خواہ اضافہ لانے کے معاملات میں دلچسپی ہے، جوپاکستانی معیشت کےلیےہی نہیں بلکہ کسی بھی سیاسی حکومت کے لیے مشکل ترین فیصلےہواکرتے ہیں۔ مزید یہ کہ پچھلے سال سیلاب کی تباہ کاریوں کےباعث معیشت پر بہت ہی بُرے اثرات مرتب ہوئے۔
دہشت گردی اور سرمایہ کاری کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں اُن کا کہنا تھا کہ دہشت گردی کے ماحول اوربجلی کی کمی کے باعث پاکستان میں بیرونی و داخلی سرمایہ کار ی کی شرح میں کمی آئی ہے، اور جب تک دہشت گردی اور انرجی دونوں مسائل کا حل سامنے نہیں آتا مشکلات درپیش رہیں گی۔
اُنھوں نے کہا کہ آئی ایم ایف سے معاہدے کی صورت میں سرمایہ کاروں کو یہ پیغام جاتا ہے کہ پاکستانی معیشت کوبیرونی سہارا مل گیا ہے۔
پاکستانی وزیر ِخزانہ کےواشنگٹن کے دورے کے بارے میں سوال پر ڈاکٹر اسد نے کہا کہ کیری لوگر بِل کے تحت امریکہ پاکستان کو پانچ سال تک سالانہ 1.5بلین ڈالر کی امداد دینی ہے، لیکن، اُن کے بقول، یہ امداد پورے طور پر شروع ہی نہیں ہوئی، اور اِس میں تاخیر سے برے اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ اُن کے الفاظ میں: جہاں تک آئی ایم ایف کے معاہدے کا تعلق ہے، لگتا ہے کہ معاہدہ چلتا رہے گا، جِس کی وجوہات زیادہ تر سیاسی ہیں۔ اگر فنڈ کے ساتھ معاہدہ جاری رہتا ہے تو آئی ایم ایف کوبھی اُن چیزوں میں کچھ اپنی طرف سےلچک دکھانی ہوگی، جس حد تک ممکن ہو۔
ڈاکٹر اسد سعید کا کہنا تھا کہ اِس وقت پاکستان کا ایکسٹرنل بیلنس آف پیمنٹ یعنی زرِ مبادلہ کے ذخائر کی صورتِ حال تسلی بخش ہے، اگر مسئلہ آیا تو 2012ء میں اِس وقت درپیش ہوگا جب پاکستان کو 2008ء میں آئی ایم ایف میں کیے گئے قرضے کے معاہدے کی اقساط کی واپسی شروع ہوگی، جس کے لیے شاید ایک نئے معاہدے کی ضرورت پڑے جس سے قرضہ واپس کرنے میں آسانی ہو۔
پاکستانی وفد نے 14سے 16اپریل تک واشنگٹن میں عالمی بینک اور بین الاقوامی مالیاتی ادارے کے سالانہ اجلاسوں میں شرکت کی۔
تفصیل کے لیے آڈیو رپورٹ سنیئے: