|
پاکستان کے وزیرِ اعظم شہباز شریف کے دورۂ سعودی عرب کے دوران پانچ ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری پیکج کو جلد مکمل کرنے پر اتفاق کیا گیا ہے۔ معاشی ماہرین کے مطابق عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کے ساتھ معاہدے اور دوست ممالک سے تعاون کے ذریعے پاکستان کی معاشی مشکلات میں کمی آ سکتی ہے۔
پاکستان کے وزیرِ خزانہ محمد اورنگزیب کہتے ہیں کہ دورۂ سعودی عرب کے بعد رواں ماہ ایک وفد واشنگٹن جائے گا جہاں آئی ایم ایف کے ساتھ پروگرام کے خدوخال طے کیے جائیں گے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پاکستان کے مشکل معاشی حالات میں اگر سعودی عرب کی طرف سے سرمایہ کاری میں اضافہ کیا جاتا ہے تو اس سے پاکستان کی مشکلات میں کمی ہو سکتی ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق کچھ عرصے بعد آئی ایم ایف کے ساتھ ہونے والے معاہدے کے لیے بھی پاکستان کو اتحادیوں کی ضرورت ہو گی۔
'ضروری نہیں کہ سعودی عرب پاکستان کی ہر بات مانے'
بین الاقوامی اُمور کے تجزیہ کار حسن عسکری کہتے ہیں کہ ہم ہر دورے میں بڑی توقعات لے کر جاتے ہیں لیکن بعد میں مایوسی ہوتی ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے حسن عسکری نے کہا کہ سعودی عرب کو پاکستان سے ہمدردی ضرور ہے۔ لیکن ایسا نہیں ہے کہ وہ پاکستان کی ہر بات کو مانیں گے بلکہ سعودی عرب اپنے مفادات کو مدِنظر رکھے گا۔
ڈاکٹر حسن عسکری کا کہنا تھا کہ محمد بن سلمان نے پاکستان میں سرمایہ کاری کی بات کی ہے۔ لیکن دیکھنا یہ ہے کہ وہ کتنے عرصے میں آتی ہے۔
اُن کے بقول شہباز شریف کا دورۂ سعودی عرب معمول کا دورہ تھا اور اس میں کوئی بہت بڑی نمایاں کامیابی نظر نہیں آئی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس دورے میں وہی باتیں دہرائی گئی ہیں جو پاکستان سعودی عرب کے دو طرفہ دوروں میں کی جاتی ہیں۔
'سعودی عرب کے لیے بھارت بڑی مارکیٹ ہے'
ڈاکٹر حسن عسکری کہتے ہیں کہ سعودی عرب میں سماجی اور ثقافتی اصلاحات کی جا رہی ہیں اور موجودہ سعودی قیادت سعودی عرب کو ایک ترقی یافتہ صنعتی ریاست بنانا چاہتی ہے جس کے لیے بھارت اُن کے لیے ایک بڑی مارکیٹ ہے۔
اُن کے بقول سعودی عرب پاکستان کے ساتھ بھی اپنے روایتی تعلقات برقرار رکھے گا، لیکن اگر سعودی عرب ٹیکنالوجی، تجارت اور صنعت میں ترقی کرنا چاہتا ہے تو بھارت ریاض کی پہلی ترجیح ہو گا۔ جب کہ بھارت اُن عالمی طاقتوں کے بھی قریب ہے جن کی سعودی عرب سے بھی قربتیں ہیں۔
انھوں نے کہا کہ سعودی عرب کبھی بھی نہیں چاہیے گا کہ جنوبی ایشیا میں کشیدگی بڑھے کیوں کہ اگر پاکستان اور بھارت کے درمیان تنازع ہوتا ہے تو موجودہ حالات میں سعودی عرب کے لیے کسی ایک کی جانب جھکاؤ مشکل مرحلہ ہو گا۔
حسن عسکری کہتے ہیں کہ دفاعی تعلقات کے حوالے سے سعودی عرب کا پاکستان پر انحصار رہے گا اور اسی لیے ریاض پاکستان کی مدد کرتا رہے گا۔ لیکن سرمایہ کاری کے حوالے سے اس کا زیادہ انحصار بھارت پر رہے گا۔
'سرمایہ کاری معاہدوں پر بات چیت خوش آئند ہے'
معاشی تجزیہ کار سمیع اللہ طارق کہتے ہیں کہ یہ دورہ مذہبی مقاصد کے لیے تھا جس میں وزیرِ اعظم اور ان کی ٹیم نے عمرہ ادا کیا۔ لیکن اس دوران سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے ساتھ بات چیت ہونا اور سرمایہ کاری کے حوالے سے ہونے والے معاہدوں پر عمل درآمد کی بات خوش آئند ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے سمیع اللہ طارق کا کہنا تھا کہ پاکستان کے آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات ہونے جا رہے ہیں جس میں اگلے پروگرام کے حوالے سے تفصیلات طے ہونا باقی ہیں۔ لہذا اس معاملے میں دوست ممالک کا کردار بھی اہم ہے۔
اُن کے بقول ماضی میں آئی ایم ایف پاکستان سے ضمانتیں طلب کرتا رہا ہے جس میں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے پاکستان کی مدد کی تھی جس کے بعد بیل آؤٹ پیکج کی راہ ہموار ہوئی تھی۔
سمیع اللہ طارق کا کہنا تھا کہ پاکستان میں سرمایہ کاری کے لیے اس وقت سعودی حکومت کے ساتھ پاکستان کے کئی منصوبے تکمیل کی طرف بڑھ رہے ہیں جب کہ کئی منصوبوں پر پیش رفت ہونا باقی ہے۔
اُن کے بقول ان میں سے ریکوڈک منصوبے میں سعودی عرب کی شراکت سے پاکستان کو کافی زیادہ فائدہ ہو سکتا ہے، اس کے علاوہ گوادر میں سعودی آرامکو ریفائنری کا پراجیکٹ بھی اب تک مکمل نہیں ہو سکا اس پر بھی پاکستانی حکام عمل درآمد چاہتے ہیں۔
فورم