ایم کیو ایم کے مقتول رہنما ڈاکٹر عمران فاروق کیس میں زیر حراست دو ملزمان محسن علی اور خالد شمیم نے اقبال جرم کر لیا ہے۔ جمعرات کو اسلام آباد میں مجسٹریٹ شعیب علی کے روبرو دیئے گئے تحریری بیان میں خالد شمیم کا کہنا تھا کہ انہوں نے سینئر پارٹی رہنما محمد انور کے کہنے پر قتل کی ہدایات آگے بڑھائیں تھیں۔
دونوں ملزمان کے اقبالی بیانات کو پاکستان کے الیکٹرونک و آن لائن میڈیا خاص کر ’ایکسپریس‘، ’جاگو‘، ’جیو نیوز‘ اور ’اے آر وائی‘ نے ناصرف نمایاں انداز میں کوریج دی ہے، بلکہ ملزمان کو عدالت میں پیشی کے لئے لاتے اور لے جاتے بھی دکھایا گیا ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق، جمعرات کو عمران فاروق قتل کیس میں گرفتار 3 میں سے 2 ملزمان محسن علی اور خالد شمیم کو ’ایف آئی اے نے سخت سیکورٹی میں مجسٹریٹ کے روبرو پیش کیا، جہاں دونوں ملزمان نے دفعہ 164 کے تحت اپنا اقبالی بیان ریکارڈ کرایا‘۔ ملزم محسن علی کا بیان 2 گھنٹے جبکہ خالد شمیم کا بیان 3 گھنٹے تک جاری رہا۔
ایکسپریس نیوز کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ’اقبالی بیان میں ملزم محسن علی کا کہنا ہے کہ اسے معظم علی اور خالد شمیم نے برطانوی ویزا سمیت دیگر تمام انتظامات مکمل کئے تھے، جبکہ عمران فاروق کو قتل کرنے کا مبینہ ٹاسک برطانیہ میں خالد شمیم کے ذریعے ملا‘۔
ملزم کے اقبالی بیان کے حوالے سے یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ ’کاشف، کامران اور ایک تیسرے شخص کی موجودگی میں عمران فاروق کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا گیا، جبکہ قتل کے دوران مزاحمت پر میں زخمی بھی ہوا‘۔
اِسی رپورٹ میں، ملزم خالد شمیم نے اپنے اقبالی بیان کے بارے میں کہا گیا ہے کہ ’متحدہ کی قیادت عمران فاروق کو راستے سے ہٹانا چاہتی تھی، جس کے لیے اہم شخصیت نے قتل کے لیے لندن سے حکم دیا تھا، جب کہ قتل کے لیے رقم بھی لندن کی اہم شخصیت نے ہی بھجوائی تھی اور معظم علی نے قتل میں سہولت کار کا کردار ادا کیا‘۔
ذرائع کے مطابق، کیس کے تیسرے ملزم، معظم علی نے اعتراف جرم سے انکار کر دیا ہے، جس میں اس کا کہنا تھا کہ وہ عمران فاروق قتل میں کسی طرح بھی ملوث نہیں، اس لیے اعتراف جرم بھی نہیں کرے گا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ملزمان محسن علی اور خالد شمیم کو بیان ریکارڈ کرانے کے بعد انتہائی سخت سیکورٹی میں بکتر بند کے ذریعے انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیشی کے لیے روانہ کردیا گیا، جہاں ان کا 14 روزہ جوڈیشل ریمانڈ دے دیا گیا جس کے بعد ملزمان کو اڈیالہ جیل بھیج دیا گیا۔
ایف آئی اے کے محکمہ انسداد دہشت گردی کے ڈائریکٹر انعام غنی کی مدعیت میں 5 دسمبر کو عمران فاروق کے قتل کا مقدمہ درج کیا گیا تھا، جس میں بتایا جاتا ہے کہ معظم علی خان، خالد شمیم اور سید محسن علی کے علاوہ ایم کیو ایم قائد الطاف حسین، محمد انور اور افتخار حسین کو بھی ملزم قرار دیا گیا ہے۔
دوسری جانب جیو نیوز اور روزنامہ جنگ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’خالد شمیم نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ ’میرا ایم کیو ایم سے تعلق ہے، مجھے عمران فاروق کے قتل کی ہدایات لندن سے ایم کیو ایم کے رہنما محمد انور نے دیں۔ میں نے محمد انور کے کہنے پر عمران فاروق کے قتل کی ہدایات آگے دی تھیں‘۔
مجسٹریٹ نے ملزم خالد شمیم سے سوال کیا کہ آپ پر کوئی دباوٴ تو نہیں؟ جس پر ملزم خالد شمیم نے جواب دیا کہ،’نہیں مجھ پر کوئی دباوٴ نہیں ہے‘۔ بیان ہاتھ سے تحریر کیا گیا ہے جس کے مکمل ہونے کے بعد ملزم کو تمام تحریر پڑھ کر سنائی گئی۔ بیان مکمل ہونے کے بعد، ملزم خالد شمیم کے دستخط اور انگوٹھا لگوایا گیا۔
ادھر، ایم کیو ایم لندن سیکریٹریٹ سے جاری کیے گئے ایک بیان میں محسن علی اور خالد شمیم سے لا تعلقی کا اظہار کیا گیا ہے۔
وائس آف امریکہ نے جب پارٹی کے ترجمان، مصطفیٰ عزیز آبادی سے رابطہ کیا تو انھوں نے جواب میں ایک تحریری بیان جاری کیا۔
بیان میں ایم کیو ایم نے واضح کیا کہ ’پارٹی کے کسی شخص کا ڈاکٹر فاروق قتل سے کوئی تعلق نہیں۔ بلکہ انھیں اس قتل پر افسوس ہے، کیونکہ ڈاکٹر فاروق برسوں ایم کیو ایم کے ساتھی رہے ہیں‘۔
بیان میں ایم کیو ایم نے ایک بار پھر ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل کی تحقیقات میں مصروف برطانوی میڑوپولیٹن پولیس کو ہر ممکن تعاون کی یقین دہانی کرائی۔