حزب مخالف کی دوسری بڑی جماعت پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے ایک بار پھر اپنے مطالبے کو دہراتے ہوئے کہا ہے کہ اگر وزیراعظم نواز شریف پاناما لیکس کے معاملے پر خود کو احتساب کے لیے پیش نہیں کرتے یا استعفیٰ نہیں دیتے تو 30 اکتوبر تحریک انصاف وفاقی دارالحکومت میں احتجاج کرے گی۔
وزیراعظم کے بچوں کے نام آف شور کمپنیوں اور بیرون ملک اثاثے رکھنے کی تفصیلات پاناما پیپرز میں سامنے آنے کے بعد سے عمران خان، نواز شریف سے احتساب کا مطالبہ کرتے آ رہے ہیں اور گزشتہ ماہ ہی انھوں نے اعلان کیا تھا کہ اگر ان کے مطالبات تسلیم نہ کیے گئے تو وہ محرم کے بعد "اسلام آباد بند کر دیں گے۔"
جمعرات کو اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے اپنی جماعت کے کارکنوں اور پاکستانی عوام سے کہا کہ "میں درخواست کرتا ہوں کہ آپ سب 30 اکتوبر کو اسلام آباد آئیں اور ہم اس وقت تک وہاں بیٹھیں گے جب تک نواز شریف خود کو احتساب کے لیے پیش نہیں کرتے یا پھر استعفیٰ نہیں دیتے۔"
حکومت کا موقف رہا ہے کہ پاناما پیپرز میں وزیراعظم کا نام نہیں ہے اور اگر تحریک انصاف احتساب چاہتی ہے تو وہ متعلقہ اداروں سے رابطہ کرے یا پارلیمان میں اس ضمن میں ہونے والی قانون سازی کا حصہ بنے ناکہ اس معاملے پر سڑکوں پر احتجاج کرے۔
تاہم عمران خان کہتے ہیں کہ متعلقہ فورمز پر ان کی بات نہ سنے جانے پر ہی وہ سڑکوں پر نکلے ہیں اور انھوں نے الزام عائد کیا کہ حکومت احتساب اور تحقیقات کرنے والوں پر اپنا اثرورسوخ رکھتی ہے۔
لیکن جمعرات کو ہی حکومتی عہدیدار محمد زبیر نے اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس کرتے ہوئے عمران خان کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ وہ حکومت پر الزام تراشی کی بجائے یہ بتائیں کہ کون سے ادارے نے کس قانون کے تحت کارروائی سے گریز کیا۔
"روز آپ بوچھاڑ کرتے ہیں، یہ تو بتائیں کہ کس ادارے نے کس قانون کے تحت کارروائی نہیں کی، ان اداروں میں محنتی اور ایماندار لوگ کام کرتے ہیں اور آپ کہتے ہیں کہ یہ سب حکومت اور حکمران جماعت کے لوگوں کی جیب میں ہیں۔"
تحریک انصاف نے پارلیمان کے مشترکہ اجلاس کا بھی بائیکاٹ کر رکھا ہے جس پر عمران خان کو حزب مخالف کی دیگر جماعتوں کی طرف سے تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
لیکن پی ٹی آئی کے سربراہ اس تنقید کو مسترد کرتے ہوئے مُصر ہیں کہ بدعنوانی کا احتساب کیے بغیر ملک کو حقیقی معنوں میں جمہوری نہیں بنایا جا سکتا اور وہ اپنے مطالبات کے تسلیم ہونے تک پارلیمان میں نہیں جائیں گے۔