پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان اُسامہ بن لادن کو شہید کہنے پر تنقید کی زد میں ہیں۔ پاکستان میں حزبِ اختلاف کی جماعتوں نے بھی عمران خان کے اس بیان کی مذمت کی ہے جب کہ عالمی میڈیا میں یہ معاملہ موضوع بحث ہے۔
جمعرات کو قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے عمران خان نے کہا تھا کہ امریکہ نے ایبٹ آباد میں اُسامہ بن لادن کو مار دیا، شہید کر دیا جس کے بعد پوری دنیا نے ہم پر الزام تراشیاں شروع کر دیں۔
یہ تقریر پاکستان کے ذرائع ابلاغ میں براہ راست نشر کی جا رہی تھی جس کے فوری بعد اس پر ردعمل آنا شروع ہو گیا۔
خیال رہے کہ مئی 2011 میں امریکی فوج نے اسامہ بن لادن کو پاکستان کے شہر ایبٹ آباد میں ہلاک کیا تھا جہاں وہ ایک بڑے کمپاؤنڈ میں مقیم تھے۔
وزیر اعظم عمران خان کا یہ بیان ملکی سیاسی و عوامی حلقوں کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی ذرائع ابلاغ میں بھی موضوع بحث بنا ہوا ہے۔ اس پر بھی تجزیے ہو رہے ہیں کہ کیا وزیر اعظم کی زبان پھسل گئی تھی یا یہ پاکستان کی ریاستی پالیسی میں تبدیلی کا اشارہ ہے۔
اگرچہ وزیر اعظم کے پارلیمنٹ میں دیے گئے بیان کو پالیسی بیان سمجھا جاتا ہے تاہم بعض تجزیہ نگاروں کا ماننا ہے کہ یہ زبان کا پھسلنا بھی ہوسکتا ہے۔
وزیر اعظم کے اس بیان پر قومی اسمبلی کے جاری اجلاس میں فوری ردعمل سامنے آیا جب حزب اختلاف کے رہنماؤں نے عمران خان سے معافی کا مطالبہ کیا۔
سابق وزیر خارجہ خواجہ آصف نے قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران کہا کہ عمران خان نے اُسامہ بن لادن کو شہید کہہ دیا حالانکہ ان کی وجہ سے پاکستان میں دہشت گردی آئی اور ہزاروں بے گناہ شہری اور سیکیورٹی فورسز کے اہل کار ہلاک ہوئے۔
پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ وزیراعظم کا اسامہ بن لادن کو شہید کہنا دراصل ان کا انتہا پسندی کی جانب مستقل جھکاؤ کا ثبوت ہے۔
پیپلز پارٹی نے اسامہ بن لادن کو شہید کہہ دینے کے بیان کو لے کر عمران خان کو قومی سلامتی کے لیے خطرہ بھی قرار دے دیا۔
عمران خان کے سیاسی مخالفین ماضی میں اُنہیں 'طالبان خان' بھی کہتے رہے ہیں۔ خیال رہے کہ عمران خان نائن الیون کے بعد افغانستان سے ملحقہ قبائلی اضلاع میں فوج بھجوانے کے سخت مخالف اور طالبان سے مذاکرات کی ضرورت پر زور دیتے رہے ہیں۔
مئی 2018 میں ایک ٹیلی ویژن انٹرویو کے دوران جب عمران خان سے پوچھا گیا کہ کیا وہ اُسامہ بن لادن کو شہید سمجھتے ہیں تو اس کے جواب میں عمران خان نے کہا تھا کہ وہ اس موضوع پر بات نہیں کرنا چاہتے۔
صحافی و تجزیہ نگار افتخار احمد کہتے ہیں کہ وزیر اعظم کرونا وائرس پر حکومتی پالیسی اور پارٹی کے اندرونی اختلافات کے باعث تنقید و دباؤ کا شکار تھے جسے رد کرنے کے لیے انہوں نے قومی اسمبلی کے بجٹ اجلاس سے خطاب کیا۔
تاہم ان کے بقول اسامہ بن لادن کو شہید قرار دے کر عمران خان نے خود کو ایک مزید بڑے تنازع کا شکار کر لیا ہے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم ہاؤس کی جانب سے اس بارے میں واضح وضاحت کا نہ آنا اس معاملے پر جاری بحث کو مزید الجھا رہا ہے کہ آیا یہ بیان غیر دانستہ تھا یا پاکستان کی پالیسی میں تبدیلی کا اشارہ ہے۔
وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے سیاسی روابط ڈاکٹر شہباز گل نے اس بیان پر کچھ وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ وزیر اعظم عمران خان کی قومی اسمبلی میں تقریر کو غیر ضروری طور پر متنازع بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر ٹوئٹس میں شہباز گل نے کہا کہ "وزیر اعظم کی قومی اسمبلی میں تقریر کے حوالے سے واضح کرنا چاہتا ہوں کہ انہوں نے اسامہ بن لادن کے لیے دو بار 'ہلاک' کا لفظ بھی استعمال کیا۔"
صحافی افتخار احمد شہباز گل کی وضاحت سے اتفاق نہیں کرتے اور کہتے ہیں کہ وزیر اعظم کا یہ بیان زبان کا پھسلنا نہیں تھا کیونکہ یہ الفاظ انہوں نے ٹھہر کر ادا کیے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ عمران خان نے سیکیورٹی اداروں پر ضرب لگائی ہے اور مقتدر حلقوں کو پیغام دیا ہے کہ ان کے کمزور پہلو بھی ہیں جن پر وہ جب چاہیں بات کرسکتے ہیں۔
عالمی دنیا کی جانب سے ردعمل کے بارے میں بات کرتے ہوئے افتخار احمد نے کہا کہ عالمی برادری وزیر اعظم عمران خان کے اس بیان کو پسند نہیں کرے گی لیکن اس پر کوئی ردعمل بھی نہیں دے گی کیونکہ ان باتوں کا انہیں پہلے سے بخوبی ادراک ہے۔
اس سے قبل گزشتہ سال اپنے دورہ امریکہ پر صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کے دوران صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر اعظم عمران نے دعوی کیا تھا کہ اسامہ بن لادن کے خلاف آپریشن پاکستان کے تعاون سے ہی کیا گیا تھا۔
ایک روز قبل ہی پاکستان کے دفترِ خارجہ نے امریکی محکمہ خارجہ کی دہشت گردی کے حوالے سے سالانہ رپورٹ پر مایوسی کا اظہار کیا تھا اور کہا تھا کہ یہ رپورٹ دہشت گردی کے خاتمے اور دہشت گردوں کی مالی معاونت کی روک تھام سے متعلق پاکستان کی کوششوں کے بارے میں امتیاز اور تضادات پر مبنی ہے۔
یاد رہے کہ امریکہ کے محکمہ خارجہ کی بدھ کو دہشت گردی سے متعلق جاری ہونے والی سالانہ رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ پاکستان نے گزشتہ سال دہشت گردوں کے خلاف کچھ کارروائیاں ضرور کی ہیں لیکن افغانستان اور بھارت کو نشانہ بنانے والے دہشت گرد گروہوں کے لیے پاکستان محفوظ پناہ گاہ بنا رہا۔