|
اسلام آباد -- دو سو پچاسی روز بعد عمران خان پہلی بار عدالت میں نظر آئے اور ساتھ ہی اُن کی تصویر بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی۔
نیب ترامیم کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل سنی جا رہی تھی۔ لیکن عمران خان کی ویڈیو لنک پر پیشی اور تصویر وائرل ہونے کے بعد یہ الگ سٹوری بن گئی کہ تصویر لیک کس نے کی۔
سپریم کورٹ کے کورٹ روم نمبر ایک میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے سربراہی میں پانچ رکنی بینچ نے 11 بج کر 37 منٹ پر سماعت کا آغاز کیا۔
چیف جسٹس نے آتے ہی ویڈیو لنک سے متعلق استفسار کیا جس پر فوری طور پر کمرۂ عدالت میں موجود اسکرینز آن کی گئیں اور عمران خان ہلکے آسمانی رنگ کی شرٹ میں ملبوس اسکرین پر دکھائی دینے لگے۔
کمرۂ عدالت میں بالکل سامنے کی سیٹوں پر بیٹھی ان کی بہنوں علیمہ خان اور عظمیٰ خان کے چہرے پر مسکراہٹ آ گئی۔ کمرۂ عدالت میں موجود تمام افراد کی نظریں اسکرین پر تھیں اور سب اس انتظار میں تھے کہ عمران خان کوئی بات کریں۔
لیکن چیف جسٹس نے وکیل خواجہ حارث سے سوال کیا کہ خواجہ صاحب کیا آپ اس کیس میں وکالت کریں گے؟ جس پر خواجہ حارث نے جواب دیا کہ میں کیس میں عدالت کی معاونت کروں گا۔
اس کے بعد حکومتی وکیل مخدوم علی خان نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں اس کیس سے متعلق ہونے والی سماعتوں کے بارے میں بتایا جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہائی کورٹ میں زیرِ سماعت ہوتے ہوئے یہ کیس سپریم کورٹ میں کیسے قابلِ سماعت ہوا؟
اس پر مخدوم علی خان نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے میں اس بارے میں بتایا گیا تھا۔ انہوں نے متعلقہ پیراگراف پڑھ دیا۔
اگلے ڈھائی گھنٹوں تک مخدوم علی خان نیب قانون بننے سے لے کر اس کی ترامیم کی پارلیمان سے منظوری اور دیگر معاملات پر بات کرتے رہے۔
لیکن اس دوران زیادہ تر لوگوں کی نظریں اسکرین پر عمران خان کی طرف تھیں کہ شاید وہ کوئی بات کریں۔ لیکن ڈھائی گھنٹے کی اس سماعت میں عمران خان نے ایک لفظ بھی نہیں بولا۔
عمران خان اس دوران زیادہ وقت سوچنے کے انداز میں چہرے پر ہاتھ رکھے بیٹھے رہے۔ کبھی کبھی سامنے پڑی پانی کی بوتل کو منہ لگا کر پانی بھی پیتے رہے۔ لیکن اس دوران عمران خان ایک لمحے کے لیے بھی کیمرے کے سامنے سے نہیں ہٹے۔
اس دوران عمران خان اڈیالہ جیل میں ای کورٹ کے جس کمرے میں بیٹھے تھے وہاں موجود وہ کسی شخص سے بات کرتے دکھائی دیے۔ لیکن ان کی آواز میوٹ تھی جس کی وجہ سے ان کی گفتگو کوئی نہیں سن سکا۔
کمرۂ عدالت میں اس وقت پریشانی کا سا عالم ہوا جب پولیس اہل کار اور افسران کمرۂ عدالت میں عام سائلین کی طرح جھکتے ہوئے اندر آئے اور جہاں اسکرین لگی تھیں وہاں تک پہنچے۔
اس دوران وہ آپس میں دھیمی آواز میں بات کرتے رہے۔ لیکن ان کی سرگرمیوں کے بارے میں پتا نہیں چل رہا تھا۔ یہ سب دیکھنے کے لیے باہر آئے تو معلوم ہوا کہ عمران خان کی تصویر کمرۂ عدالت سے لیک ہو چکی ہے۔
اب وہ پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا سمیت کئی واٹس ایپ گروپس، ایکس، فیس بک سمیت لاکھوں جگہ پر شئیر کی جا چکی ہے اور اب پولیس افسران کورٹ روم نمبر ون کے باہر کھڑے تمام وکلا اور صحافیوں کے موبائل چیک کر رہے تھے کہ عدالت کے اندر فون کون لے کر گیا ہے۔ لیکن اب دیر ہو چکی تھی اور تصویر لیک ہو چکی تھی۔
اس دوران کسی شخص نے کہا کہ شوکت بسرا نے یہ تصویر کھینچی ہے۔ شوکت بسرا عدالت میں موجود تھے لیکن انہوں نے یہ تصویر بنانے کی تردید کر دی۔
سماعت کے دوران یہ صورتِ حال سامنے آنے پر عمران خان کی تصویر اسکرین سے ہٹا دی گئی۔ لیکن کچھ دیر بعد دوبارہ اسکرین پر عمران خان نظر آنے لگے۔
سماعت کے دوران ایک موقع پر مخدوم علی خان کے دلائل کے دوران چیف جسٹس پاکستان نے مسکراتے ہوئے کہا کہ عمران خان ان نکات کو نوٹ کر لیں ہم ان سے جواب لیں گے۔ اس پر عمران خان چہرے پر ہاتھ رکھ کر مسکرانے لگے۔
سماعت کے آخر میں چیف جسٹس نے مخدوم علی خان سے سوال کیا کہ آپ کو کتنا وقت درکار ہے جس پر انہوں نے کہا کہ مجھے کچھ گھنٹے درکار ہوں گے۔
اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ میں آئندہ ہفتے دستیاب نہیں ہوں۔ خواجہ صاحب آپ دستیاب ہیں؟ اس پر خواجہ حارث نے کہا کہ جی میں یہیں پر ہوں۔
اس کے ساتھ ہی جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ عمران خان بھی اڈیالہ کے اندر ہی ہوں گے۔ اس پر عدالت میں موجود تمام افراد ہنسنے لگے۔ اس پر میرے قریب کھڑے ایم این اے علی محمد خان نے کہا کہ وہ جیل سے سیدھے وزیرِ اعظم ہاؤس جائیں گے۔
سماعت کے آخر میں چیف جسٹس نے آرڈر لکھوایا اور سماعت بینچ کی دستیابی تک غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کر دی۔
اس کے ساتھ ہی کمرۂ عدالت سے باہر نکلے تو قریب موجود ایک صحافی نے کہا کہ آج عمران خان کو دگنی سزا دی گئی کہ جیل میں تو وہ پہلے ہی تھے۔
اوپر سے ڈھائی گھنٹے تک سیٹ پر بٹھا کر ان کا ایک لفظ بھی عوام تک پہنچنے نہیں دیا گیا۔
سماعت کے دوران جسٹس اطہر من اللہ نے اچانک اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ججوں کو پراکسی کے ذریعے دھمکایا جا رہا ہے۔
کیا آپ پگڑیوں کو فٹبال بنائیں گے۔ اس پر اٹارنی جنرل عثمان منصور نے کہا کہ بالکل یہ توہین آمیز تھا۔ اس پر جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ جو جو کچھ کر رہے ہیں ان کو کرنے دیں، وہ خود کو ایکسپوز کر رہے ہیں۔
واضح رہے کہ عدالتی اُمور میں ایجنسیز کی مداخلت سے متعلق اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس بابر ستار کے مبینہ خط پر سینیٹر فیصل واوڈا نے پریس کانفرنس کی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ اب الزام لگانے سے کام نہیں چلے گا، بار بار انٹیلی جینس اداروں کا نام لیا جا رہا ہے۔ اب اگر کوئی پگڑی اچھالے گا تو پگڑی کی فٹ بال بنائیں گے۔
فورم