|
اسرائیل کے وزیرِ دفاع یوو گیلنٹ نے وزیرِ اعظم بن یامین نیتن یاہو کو حماس کے خلاف جنگ کے خاتمے کے بعد غزہ کے انتظام کے حوالے سے کوئی منصوبہ پیش کرنے میں ناکامی پر تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
وزیرِ دفاع یوو گیلنٹ نے بدھ کو ٹی وی پر نشر ہونے والے بیان میں کہا کہ وہ اسرائیل کی فوج یا سویلین اتھارٹی کے ذریعے غزہ کا انتظام سنبھالنے کی مخالفت کرتے ہیں اور فلسطینی عسکری تنظیم حماس کی شکست سے قبل ایسا کرنا بے معنی ہوگا۔
حماس کے خاتمے کے بعد غزہ کا انتظام چلانے کے حوالے سے وزیرِ دفاع یوو گلینٹ نے کہا کہ وہ جنگ کے آغاز کے بعد سے کابینہ میں متواتر یہ معاملہ اٹھاتے رہے ہیں۔ لیکن انہیں کوئی جواب نہیں مل سکا ہے۔
انہوں نے کہا کہ وہ وزیرِ اعظم بن یامین نیتن یاہو سے چاہتے ہیں کہ وہ اس معاملے کی وضاحت کریں کہ اسرائیل غزہ پر اپنا سویلین کنٹرول قائم نہیں کرے گا۔
البتہ وزیرِ اعظم نیتن یاہو جنگ کے بعد غزہ کا انتظام سنبھالنے کا خاکہ واضح کرنے سے انکار کرتے رہے ہیں۔
ان کے بقول سات ماہ کی جنگ کے بعد بھی اگر غزہ میں حماس بدستور موجود ہے تو یہ بحث لا حاصل ہے کہ جنگ کے بعد غزہ پر کون حکمرانی کرے گا۔
اسرائیلی وزیرِ اعظم نے سوشل میڈیا میسجنگ ایپ ’ٹیلی گرام‘ پر اپنے چینل پر ایک بیان میں کہا کہ زمینی حالات اس صورت میں موافق ہوں گے جب حماس کا خاتمہ ہو گا اور اس کا خاتمہ کسی عذر کے بغیر ممکن بنانا ہوگا۔
اسرائیل کے دونوں اہم ترین حکومتی شخصیات میں اختلاف کو غیر معمولی قرار دیا جا رہا ہے۔
گزشتہ برس سات اکتوبر کو غزہ کا انتظام سنبھالنے والی عسکری تنظیم حماس نے اسرائیل پر حملہ کیا تھا جس میں لگ بھگ 1200 افراد ہلاک اور ڈھائی سو کے قریب افراد کو یرغمال بنا لیا گیا تھا۔
حماس کے حملے اور اسرائیل کے اعلانِ جنگ کے بعد غزہ میں اب تک 34 ہزار سے زیادہ فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں جن میں بڑی تعداد خواتین اور بچوں کی ہے۔
اسرائیلی فورسز مسلسل یہ دعویٰ کر رہی ہیں کہ غزہ میں کارروائیوں کے دوران 14 ہزار سے زائد عسکریت پسند ہلاک ہو چکے ہیں۔
اسرائیل کے اپنے ہی ٹینک کے گولے سے پانچ فوجی ہلاک
اسرائیل نے بتایا ہے کہ شمالی غزہ میں اس کے اپنے ہی ٹینک سے داغے گئے گولے سے پانچ فوجی ہلاک ہو گئے ہیں۔
فوج کے بیان میں کہا گیا ہے کہ کراس فائر کے دوران ٹینک نے گوالہ داغا تھا جس کی زد میں فوجی اہلکار آئے۔ اس واقعے میں تین اہلکار زخمی بھی ہوئے ہیں۔
گزشتہ برس اکتوبر میں شروع ہونے والی جنگ کے بعد سے اب تک اسرائیل کے 273 فوجی ہلاک ہو چکے ہیں۔
سیاسی اقدامات کی تجویز
اسرائیلی وزیرِ دفاع کہتے ہیں کہ غزہ میں موجودہ فوجی کارروائی کے بعد سیاسی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ حماس کا خاتمہ اسی صورت میں ہوگا جب غزہ کا کنٹرول فلسطینیوں کے ہاتھوں میں ہو اور انہیں بین الاقوامی شرکت داروں کی معاونت حاصل ہو۔
اسرائیلی وزیرِ دفاع کا خیال ہے کہ اسی صورت میں غزہ میں حماس کے متبادل کے طور پر حکمرانی قائم ہو سکتی ہے اور یہ اسرائیلی ریاست کے حق میں ہے۔
وزیرِ دفاع کو تبدیل کرنے پر زور
وزیرِ اعظم نیتن یاہو کی کابینہ میں شامل انتہائی دائیں بازو کے وزیر برائے قومی سلامتی اتمار بن گویئر نے وزیرِ دفاع یوو گلینٹ کو ان کے حالیہ خیالات کے سبب شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
وزیر برائے قومی سلامتی اتمار بن گویئر نے یوو گلینٹ کو ایسا وزیرِ دفاع قرار دیا جو سات اکتوبر 2023 کو حماس کے حملے روکنے میں ناکام رہا اور ان کے بقول وزیرِ دفاع اب بھی مسلسل ناکامی کا سامنا کر رہے ہیں اور جنگ کے اہداف کے حصول کے لیے ایسے وزیرِ دفاع کو لازمی طور پر تبدیل کر دینا چاہیے۔
امریکہ کیا چاہتا ہے؟
امریکہ اسرائیل کو ہتھیار فراہم کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے اور وہ اسرائیل پر زور دیتا رہا ہے کہ اسرائیل غزہ اور مغربی کنارے دونوں کا انتظام فلسطینی اتھارٹی کو سنبھال دے۔
امریکہ دو ریاستی حل کو اسرائیل اور فلسطینیوں کے تنازع کا حل قرار دیتا ہے۔
تاہم وزیرِ اعظم نتین یاہو اور انتہائی دائیں بازو کی جماعتوں کی حمایت سے قائم ان کی اتحادی حکومت اس طرح کی کسی بھی تجویز کو مسترد کرتی رہی ہے۔
اسرائیل کی فوج نے کہا ہے کہ اس نے گزشتہ ایک روز کے دوران غزہ میں فضائی کارروائی کے دوران لگ بھگ 80 اہداف کو نشانہ بنایا ہے۔
فوج کے مطابق زمینی فورسز کی بھی رفح کے مشرق میں کارروائی جاری ہے۔ غزہ کے شمالی علاقوں میں بھی اب اسرائیلی فوج ایک بار پھر کارروائیوں میں مصروف ہے۔
شمالی غزہ کے حوالے سے اسرائیل کی فوج نے چار ماہ قبل دعویٰ کیا تھا کہ یہاں حماس کی تنصیبات کو تباہ کر کے عسکری تنظیم کو غیر فعال کر دیا گیا ہے۔
یورپی یونین کا اسرائیلی کارروائی روکنے کا مطالبہ
اسی دوران یورپی یونین نے جنوبی غزہ کے شہر رفح میں اسرائیلی فوج کی کارروائی فوری طور پر روکنے کا مطالبہ کیا ہے۔
بدھ کو ایک بیان میں یورپی یونین کا کہنا تھا کہ رفح میں کارروائی سے غزہ میں امداد کی ترسیل کے عمل میں خلل آ رہا ہے جب کہ مزید لوگ نقل مکانی، خوراک کی کمی اور شدید مشکلات کا سامنا کرنے پر مجبور ہیں۔
یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے سربراہ جوزف بوریل نے تسلیم کیا کہ اسرائیل کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے۔ لیکن اس کے ساتھ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اسرائیل لازمی طور پر بین الاقوامی قوانین کی پاسداری کرے اور عام شہریوں کے تحفظ کو یقینی بنائے۔
امریکی ڈاکٹروں کو غزہ سے نکالنے کی کوشش
دریں اثنا امریکہ نے کہا ہے کہ غزہ میں رفح کراسنگ کی بندش کے بعد وہاں پھنسے امریکی ڈاکٹروں کے ایک گروپ کو نکالنے کے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔
امریکی محکمۂ خارجہ نے کہا تھا کہ امریکی انتظامیہ آگاہ ہے کہ امریکی ڈاکٹر غزہ چھوڑنے سے قاصر ہیں۔
قبل ازیں ویب سائٹ ’دی انٹرسیپٹ‘ کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ جنگ زدہ غزہ میں لگ بھگ 20 امریکی ڈاکٹر اور طبی رضا پھنسے ہوئے ہیں۔
امریکہ کی ایک غیر سرکاری تنظیم ’فلسطینین امریکن میڈیکل ایسوسی ایشن‘ نے پیر کو کہا تھا کہ اس کے عملے کے 19 افراد پر مشتمل ٹیم کو غزہ سے نکلنے کی أجازت نہیں دی جا رہی۔ اس 19 رکنی ٹیم میں 10 امریکی بھی شامل ہیں۔ یہ ٹیم خان یونس شہر کے یورپی اسپتال میں دو ہفتے تک خدمات انجام دیتے رہے۔
اسرائیل نے سات مئی کو مصر کے ساتھ غزہ کی واحد فعال گزر گارہ رفح کراسنگ کو بند کر دیا تھا۔ اس گزرگاہ کی بندش سے غزہ میں امداد کی ترسیل میں بھی خلل پڑا ہے۔
وائٹ ہاؤس کے مطابق وہ معاملے پر نظر رکھے ہوئے ہے اور متاثرہ امریکی شہریوں کو غزہ سے نکالنے کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ امریکہ اس معاملے پر اسرائیل سے براہ راست رابطے میں ہے۔