پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے اپنے دورہ ایران کے دوران ایران کے صدر حسن روحانی کے ساتھ مشترکہ نیوز کانفرنس کرتے ہوئے ایک ایسا بیان دیا ہے جس نے پاکستان کے سیاسی حلقوں میں ہلچل مچا دی ہے۔
دہشت گردی کا حوالہ دیتے ہوئے، انھوں نے کہا کہ اُن کی حکومت نے ملک میں مکمل یکجہتی کے ساتھ فیصلہ کیا ہے کہ پاکستان کسی دوسرے ملک میں دہشت گرد کارروائیوں کیلئے اپنی سرزمین استعمال نہیں ہونے دے گا۔ اُنہوں نے کہا کہ چند روز پہلے بلوچستان میں ایران سے آنے والے دہشت گردوں نے پاکستان کے 14 سیکورٹی اہلکاروں کو ہلاک کر دیا اور وہ جانتے ہیں کہ ماضی میں ایران کو بھی ایسے عسکریت پسندوں نے دہشت گردی کا نشانہ بنایا، جنہوں نے اس کیلئے پاکستان کی سرزمین کو استعمال کیا۔
اُنہوں نے کہا کہ پاکستان اور ایران کے سیکورٹی سربراہان مل کر ایسا لائحہ عمل تیار کریں گے جس سے اس کا تدارک کیا جا سکے اور دونوں ملکوں کے درمیان اعتماد کی فضا قائم ہو سکے۔
اس کے علاوہ تہران میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ جرمنی اور جاپان نے دوسری جنگ عظیم کے دوران لاکھوں لوگوں کو ہلاک کیا۔ تاہم، اس عالمی جنگ کے بعد دونوں ملکوں نے اپنے سرحدی علاقوں میں مشترکہ طور پر صنعتیں قائم کر لیں اور یوں ان دونوں '’ہمسایہ‘' ملکوں میں تعلقات بگڑنے کا سوال ہی باقی نہیں رہا۔
عمران خان کے ان دونوں بیانات پر جہاں پاکستان کی قومی اسمبلی میں اپوزیشن اور حکومتی ارکان کے درمیان ہنگامہ آرائی ہوئی، اپوزیشن نے وزیر اعظم پر الزام عائد کیا کہ عمران خان نے ایران میں قومی سلامتی کو نشانہ بنایا ہے؛ وہیں ارکان نے وزیر اعظم کے جاپان اور جرمنی سے متعلق بیان کو تمسخر کا نشانہ بنایا جس میں وزیر اعظم نے دونوں ممالک کو ہمسایہ ملک قرار دیا تھا۔
ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کی زیر صدارت قومی اسمبلی کا اجلاس ہوا تو اپوزیشن ارکان نے وزیر اعظم عمران خان کی ایران میں تقریر پر انہیں تنقید کا نشانہ بنایا۔ اس دوران فریقین میں خوب تلخ کلامی ہوئی اور ایک دوسرے کے خلاف نعرے بازی بھی کی گئی۔ حزب اختلاف کے ارکان اسمبلی نے احتجاج کرتے ہوئے اسپیکر کے ڈائس کے آگے دھرنا دے دیا۔
خرم دستگیر
سابق وزیر دفاع اور ن لیگ کے رہنما خرم دستگیر نے کہا کہ ''وزیر اعظم نے ایران میں جو بیان دیا وہ انتہائی خطرناک ہے۔ وزیر اعظم نے اعتراف کیا کہ عسکری گروپ پاکستان نے بنائے اور ایران میں دہشت گردی کے گروپ پاکستان کے اندر سے آپریٹ کر رہے ہیں۔ انہوں نے قومی سلامتی کو نشانہ بنایا ہے''۔
شیریں مزاری
اس موقع پر وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری نے کہا کہ ''وزیر اعظم کے ایران میں دیے گئے بیان کو پورا پڑھا جائے۔ ایران اور پاکستان کو کالعدم تنظیموں کو سرحد کے دونوں اطراف ختم کرنا ہوگا۔ دونوں ممالک میں کالعدم تنظیموں کے خاتمے پر بات ہوئی ہے''۔
حنا ربانی کھر
پی پی پی کی حنا ربانی کھر نے کہا کہ ''وزیر اعظم نے ایرانی صدر کے ساتھ کھڑے ہو کر کہا کہ ایران میں ہونے والی دہشت گردی میں ہماری سر زمین استعمال کی گئی۔ انہوں نے پاکستان کو مذاق بنا دیا ہے۔ وہ کہتے ہیں مودی الیکشن جیت گیا تو کشمیر کا مسئلہ حل ہو سکتا ہے''۔
اس موقع پر ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری نے وزیر مواصلات مراد سعید کو بات کرنے کی اجازت دی تو اپوزیشن نے اسپیکر ڈائس کا گھیراؤ کر لیا اور بھرپور اجتجاج کیا۔
مراد سعید کی تقریر کے دوران اپوزیشن نے شور مچاتے ہوئے ''نو بے بی نو'' اور ''رو بے بی رو'' کے نعرے لگائے۔ اپوزیشن نے اسپیکر کے ڈائس کا گھیراؤ کرتے ہوئے ایجنڈے کی کاپیاں پھاڑ دیں اور دھرنا دیتے ہوئے ''گو نیازی، گو نیازی گو'' کے نعرے لگائے۔ ڈپٹی اسپیکر نے نماز کا وقفہ کرتے ہوئے اجلاس ملتوی کر دیا۔ اجلاس میں وزیر اعظم عمران خان کے جرمنی اور جاپان سے متعلق بیان پر بھی شدید تنقید کی گئی۔ اپوزیشن ارکان کا کہنا تھا کہ ''وزیر اعظم کو اب تاریخ کے ساتھ ساتھ جغرافیہ بھی پڑھ لینا چاہیے''۔
اسمبلی میں اس ہنگامہ آرائی کے علاوہ سماجی رویوں کی ویب سائٹس پر بھی عمران خان کے بیانات پر تبصروں کا ایک طویل سلسلہ جاری ہے۔ ایک ٹویٹ میں محقق اور سماجی کارکن عمبر جاوید ملک نے ٹویٹ کی کہ ''ہمیں جاپان اور جرمنی کو ہمسایہ قرار دینے سے زیادہ عمران خان کا دہشت گرد کارروائیوں کیلئے پاکستان کی سرزمین استعمال ہونے سے متعلق بیان پر فکرمند ہونا چاہئیے''۔