خاتون جج زیبا چوہدری کو دھمکیاں دینے پر توہین عدالت کیس میں سابق وزیرِ اعظم اور چیئرمین تحریکِ انصاف عمران خان پر جمعرات کو فردِ جرم عائد کی جائے گی جس کے لیے عمران خان اسلام آباد ہائی کورٹ پہنچ گئے ہیں۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہرمن اللہ کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ دن ڈھائی بجے کیس کی سماعت کرے گا۔
توہین عدالت کے کیس کی سماعت سے متعلق ہائی کورٹ نے باضابطہ طور پر ضابطہ اخلاق جاری کر دیا ہے جس کے مطابق کمرۂ عدالت نمبر ایک میں داخلے کی اجازت صرف ان افراد کو دی جائے گی جن کے پاس رجسٹرار آفس سے جاری کردہ پاس ہوں گے۔
سابق وزیر عمران خان کی قانونی ٹیم میں شامل وکلا، اٹارنی جنرل آفس اور ایڈووکیٹ جنرل آفس کے 15 لاء افسران، عدالتی معاونین اور کورٹ رپورٹرز کو ہی سماعت کے دوران کمرۂ عدالت میں جانے کی اجازت ہو گی۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے باہر بھی سیکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے ہیں۔ سیکیورٹی کے خصوصی دستوں سمیت عدالت کی عمارت کے باہر خار دار تاریں بھی لگائی گئی ہیں۔
واضح رہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے 8 ستمبر 2022 کو ایڈیشنل سیشن جج زیبا چوہدری سے متعلق دیے گئے بیان پر عمران خان کے خلاف توہین عدالت پر فرد جرم عائد کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے سماعت 22 ستمبر تک ملتوی کردی تھی۔
مذکورہ کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے تھے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے لیے ماتحت عدالتیں ریڈ لائن ہیں۔توہینِ عدالت بہت حساس معاملہ ہوتا ہے اور یہ جرم بہت سنجیدہ نوعیت کا ہے۔
عمران خان کے خلاف توہینِ عدالت کا کیس کیوں بنا؟
سابق وزیرِ اعظم عمران خان نے 20 اگست کو اسلام آباد میں پارٹی کارکنوں سے خطاب کے دوران اسلام آباد پولیس کے افسران سمیت سیشن جج زیبا چوہدری کو مبینہ طور پر دھمکیاں دیتے ہوئے کہا تھا کہ آپ نتائج کے لیے تیار ہو جائیں۔
عمران خان نے کارکنوں سے یہ خطاب شہباز گل کے جسمانی ریمانڈ میں سیشن کورٹ کی جج زیبا چوہدری کی جانب سے توسیع دیے جانے کے بعد دیا تھا۔
چیئرمین تحریکِ انصاف عدالت میں جمع کرائے گئے اپنے بیان پر افسوس کا اظہار بھی کر چکے ہیں۔ تحریری بیان میں ان کا کہنا تھا کہ غیر ارادی طور پر زبان سے نکلنے والے الفاظ پر انہیں افسوس ہے اور ان کے بیان کا مقصد خاتون جج کی دل آزاری کرنا نہیں تھا۔