پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے سال نو کی پہلی ٹوئٹ پوسٹ کرنے کے محض ایک گھنٹے بعد ہی حذف کر دی۔
وزیر اعظم عمران خان نے جمعے کو پاکستانی وقت کے مطابق شام سوا سات بجے ایک ٹوئٹ کی۔ ٹوئٹ میں ایک ویڈیو شیئر کی گئی جس میں بھارت کی ریاست اتر پردیش کا حوالہ دیا گیا کہ وہاں شہریت بل کے خلاف مظاہرہ کرنے والوں پر بدترین تشدد کیا جا رہا ہے۔
عمران خان کی ٹوئٹ پر سوشل میڈیا صارفین نے انہیں تنقید کا نشانہ بنایا۔ فیک نیوز کو جانچنے والی ایک بھارتی ویب سائٹ نے عمران خان کو ٹیگ کیا کہ یہ ویڈیو بھارت کی نہیں بلکہ بنگلہ دیش کی ہے۔
فیک نیوز کو جانچنے والی ویب سائٹ نے مزید بتایا کہ وزیر اعظم عمران خان نے بنگلہ دیش کے دارالحکومت میں ہونے والے مظاہروں کے دوران پولیس تشدد کی ویڈیو شیئر کر دی۔
بعدازاں یہ ویڈیو ٹوئٹ عمران خان کے ٹوئٹر اکاؤنٹ سے حذف کر دی گئی۔ لیکن بھارتی میڈیا اور اقوام متحدہ میں بھارت کے مستقل مندوب سید اکبرالدین نے پاکستانی وزیر اعظم کو خوب آڑے ہاتھوں لیا۔
اکبرالدین نے اپنی ٹوئٹ میں پاکستان اور پاکستانی وزیر اعظم کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔
بھارتی مندوب نے کہا کہ پاکستان کے وزیر اعظم نے سات سال قبل بنگلہ دیش میں ہونے والی ویڈیو شیئر کی اور کہا کہ یہ بھارتی ریاست اتر پردیش ہے۔
پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان کی یہ ٹوئٹ اس وقت پوسٹ ہوئی۔ جب بھارت کی جانب سے پاکستان کے صوبہ پنجاب کے ضلع ننکانہ صاحب میں گوردوارے کے باہر احتجاج پر تنقید ہو رہی تھی۔
بھارتی پنجاب کے وزیر اعلٰی کیپٹن (ریٹائرڈ) امریندر سنگھ نے ایک ٹوئٹ میں پاکستان کے وزیر اعظم کی توجہ ننکانہ صاحب میں گوردوارے پر مبینہ حملے کی جانب مبذول کرائی تھی۔
البتہ پاکستان کی وزارتِ خارجہ نے ایک بیان میں کہا تھا کہ ننکانہ صاحب میں گوردوارے کو نقصان نہیں پہنچا۔
خیال رہے کہ جمعے کو پاکستان کے صوبہ پنجاب کے ضلع ننکانہ صاحب میں ایک مقامی تنازع پر گوردوارے کے باہر جمع ہو گئے تھے۔ بعض اطلاعات کے مطابق مشتعل مظاہرین نے وہاں توڑ پھوڑ بھی کی۔ لیکن پاکستان کی حکومت نے اس کی تردید کی تھی۔
عمران خان کی ٹوئٹ پر بھارت کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان رویش کمار بھی پیچھے نہ رہے۔ اپنی ٹوئٹ میں رویش کمار نے کہا کہ "فیک نیوز ٹوئٹ کرتے جاؤ۔ اور جب پکڑے جاؤ تو اسے حذف کر دو۔"
ہفتے کو پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے تازہ ٹوئٹ کی۔ جس میں شہریت بل کے خلاف مظاہرہ کرنے والے مسلمانوں پر تشدد کی مذمت کی گئی۔
خیال رہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان حالات گزشتہ سال سے ہی کشیدہ ہیں۔
پانچ اگست کو بھارت کی جانب سے جموں و کشمیر کی نیم خود مختار حیثیت ختم کرنے کے بعد پاکستان نے بھارت کے ساتھ سفارتی اور تجارتی تعلقات محدود کر لیے تھے۔
بھارت نے گزشتہ ماہ میں شہریت بل منظور کیا تھا۔ جس کے تحت پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان سے مذہب کے نام پر ستائے گئے افراد کو بھارت کی شہریت دینے کی منظوری دی گئی تھی۔
اس بل کے خلاف بھارت میں مظاہروں کا سلسلہ تھمنے میں نہیں آ رہا۔ پاکستان نے بھی اس بل کی منظوری پر بھارت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔