اسد حسن
جسٹس وجیہہ الدین نے کہا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے مسائل گھمبیر ہیں۔ پارٹی کے منشور پر عملدرآمد کرنا ہو تو لوگ بھی ایسے چاہیے ہوتے ہیں جو اس منشور سے ٹکراؤنہیں مطابقت رکھتے ہوں لیکن، ان کے بقول، مختلف پارٹیوں سے آنے والوں کی اکثریت ماضی کے آئینے میں اچھے کردار یا اچھی کارکردگی کی حامل نہیں ہے۔
جسٹس وجیہہ نے کہا کہ تحریک انصاف کے چئیرمین عمران خان کے بارے میں ان کا تاثر اچھا تھا جس بنیاد پر وہ پارٹی میں شامل ہوئے لیکن قریب سے دیکھنے پر معلوم ہوا ہے کہ وہ جو حاصل کرنا چاہتے ہیں اس کے لیے کبھی بھی کمپرومائز کر سکتے ہیں اور اصولوں کو بالائے طاق رکھ سکتے ہیں۔
اپنی پارٹی عام لوگ اتحاد کے بارے میں جسٹس وجیہہ الدین نے کہا کہ عام لوگوں کی جانب سے زبردست پذیرائی مل رہی ہے اورہم آئندہ انتخابات میں بہترین متبادل کے طور پر خود کو عوام کے سامنے رکھیں گے۔
انہوں نے دعوی کیا کہ ان کا منشور عام آدمی کے مفاد اور حقوق کو یقینی بناتا ہے۔
جسٹس وجیہہ الدین تحریک انصاف کے انٹراپارٹی انتخابات میں مبینہ بدنظمی اور دھاندلیوں کی تحقیقات کر نے والے پارٹی ٹربیونل کی نگرانی کر رہے تھے مگر اس ٹریبونل کی سفارشات کے مطابق عمران خان کے قریبی ساتھیوں اور پارٹی میں شامل بڑے ناموں جہانگیر ترین، علیم خان، نادر لغاری اور وزیراعلی خیبرپختونخوا پرویز خٹک کے خلاف کارروائی نہ ہونے پر اختلافات کے بعد وہ ذرائع ابلاغ پر آ کر تنقید کرتے رہے جس کے بعد ان کو عمران خان کی جانب سے شوکاز نوٹس بھی جاری کیا گیا ۔جس پر انہوں نے جواب دینے کے بجائے پارٹی سے استعفی دے دیا۔
عمران خان اور تحریک انصاف کا موقف رہا ہے کہ اگر ان کی پارٹی میں بدعنوان لوگ ہیں تو حکومت وقت کی ذمہ داری ہے کہ ان کا احتساب کرے۔
اسی طرح عمران خان ذاتی مفادات کو ترجیح دینے جیسے الزامات کی بھی تردید کرتے آئے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ ان کی جدوجہد ذاتی مفادات کے حصول کے لیے نہیں بلکہ ملک اور قوم کے لیے ہے۔