رسائی کے لنکس

حق اظہار ختم ہوجائے تو پھر جمہوریت کہاں؟ امتیاز عالم


Imtiaz Alam
please wait

No media source currently available

0:00 0:01:56 0:00

امتیاز عالم کو صرف صحافی نہیں کہا جا سکتا۔ وہ انسانی حقوق کے علم بردار ہیں اور خطے میں امن کے لیے آواز اٹھانے والوں میں شامل ہیں۔ وہ صحافیوں کو جامعات میں پڑھانے والے اساتذہ کے استاد رہے ہیں۔ جنوبی ایشیا میں صحافت کی آزادی کے لیے کام والی تنظیم ’سیفما‘ کے سربراہ ہیں۔ ساری زندگی عملی صحافت میں گزاری اور موقر اخبارات میں کالم لکھے۔ کالم نگاری اور نیوز چینلوں پر تجزیہ کاری کا سلسلہ جاری ہے۔

میں نے امتیاز عالم سے چھوٹا سا سوال کیا کہ پاکستان میں میڈیا کا گلا کون گھونٹتا ہے؟

امتیاز صاحب نے کہا کہ وہ میڈیا ہاؤسز جو اہمیت رکھتے ہیں، یعنی جنگ گروپ، ڈان گروپ اور نوائے وقت گروپ، اور کچھ افراد جو اصولوں اور آزادی صحافت کی بات کرتے ہیں، ان کے لیے لکھنا اور بولنا کافی مشکل ہوگیا ہے۔ ان کی تحریریں نہیں چھاپی جاتیں۔ انھیں بتایا جاتا ہے کہ آئی ایس پی آر کی طرف سے ہمیں ہدایات دی گئی ہیں۔ الیکشن سے پہلے اور بعد بھی یہ سلسلہ جاری رہا۔ نیوز چینلوں کی نشریات اور جنگ اور ڈان کی تقسیم کو روکا گیا۔ یہ سب ہم نے دیکھا۔ چند روز پہلے آئی ایس پی آر حکام اور میڈیا مالکان کی ملاقات ہوئی ہے۔ ہم نے سنا ہے کہ اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ جو پہلے ہوا سو ہوا، آئندہ ایسا نہیں ہوگا۔ اگر ایسا وعدہ کیا گیا ہے تو اچھی بات ہے۔

بقول اُن کے، ’’یہ بات درست نہیں کہ آئی ایس پی آر کے لوگ میڈیا میں مداخلت نہیں کرتے رہے۔ وہ کرتے رہے ہیں۔ حتیٰ کہ مائیکرو منیجمنٹ کرتے رہے ہیں کہ کون سی خبر چھپنی ہے اور کون سی نہیں چھپنی۔ یہ لفظ کیوں اور وہ کیوں ہے یا کوئی تاثر کیوں دیا جارہا ہے۔ یہ سب ہوتا رہا ہے۔ اگر اب یہ رک گیا ہے یا رک جائے گا تو مثبت پیشرفت ہے۔ اس بارے میں بہت کچھ چھپ گیا ہے۔ جیو آف ایئر کیا جاتا تھا، ڈان کینٹونمنٹ ایریاز میں نہیں جاسکتا تھا، یہ سب کو پتا ہے، یہ راز نہیں ہے۔ جو لوگ اس کا انکار کرتے ہیں، وہ جھوٹ بولتے ہیں۔ اگر اب وہ کہہ رہے ہیں کہ آئندہ نہیں کریں گے تو میں اس کا خیرمقدم کرتا ہوں‘‘۔

میں نے امتیاز صاحب کو بتایا کہ بعض کالم نگار سوشل میڈیا پر بتاتے ہیں کہ ان کے کالم روکے گئے ہیں۔ میری محمود شام صاحب اور ارشاد عارف صاحب سے اس بارے میں بات ہوئی۔ وہ کہتے ہیں کہ ایڈیٹر کو کالم روکنے کا حق ہوتا ہے۔ پہلے بھی کالم روکے جاتے تھے۔ لیکن کوئی سوشل میڈیا پر اعلان نہیں کرتا تھا۔

امتیاز صاحب نے کہا کہ ’’اب ایڈیٹر ہوتا کہاں ہے؟ بس ایسے ہی لوگ انھوں نے رکھے ہوئے ہیں۔ چند ایک ہی اخبارات میں ایڈیٹر رہ گئے ہیں، جیسے ڈان میں۔ ایک آدھ اور کہیں ہوگا۔ انگریزی اخبار میں کچھ املا وغیرہ ٹھیک کرنا پڑتا ہے۔ اردو میں وہ بھی نہیں ہے۔ ضابطہ اخلاق کیا ہے، مہذب اظہار کیا ہے، میڈیا کی اخلاقیات اور اخلاقی اقدار کو سامنے رکھتے ہوئے کالم ایڈٹ کیا جاسکتا ہے۔ لیکن جہاں تک نقطہ نظر کا معاملہ ہے، ایڈیٹر کو یہ حق حاصل نہیں کہ کالم کو اپنی ایڈیٹوریل پالیسی کے مطابق ایڈٹ کرے‘‘۔

اُنھوں نے کہا کہ ’’جو لوگ اسٹیبلشمنٹ کے حق میں لکھتے ہیں، انھیں بھلا کیا تکلیف ہے؟ جو لوگ انتہاپسندوں پر تنقید نہیں کرتے یا دہشت گردی یا ان پالیسیوں کے بارے میں سوال نہیں اٹھاتے جو خطے میں بحران کا سبب ہیں، ان کے کالم چھپنے سے کسی کو تکلیف نہیں ہوتی۔ تکلیف تو ان سے ہے جو اختلاف کرتے ہیں‘‘۔

میں نے ڈرتے ڈرتے سوال کیا کہ میرے منہ میں خاک، کیا کچھ اخبارات یا چینل بند ہونے کا خدشہ ہے؟ کیونکہ میڈیا انڈسٹری میں مندی کا رجحان ہے۔

امتیاز صاحب نے کہا کہ ’’ہاں۔ مجموعی طور پر میڈیا انڈسٹری کی حالت ٹھیک نہیں۔ بہت سے اخبار بند ہو رہے ہیں یا بند ہوجائیں گے۔ لوگ ملازمتوں سے نکالے جا رہے ہیں۔ گزشتہ دور کے سرکاری اشتہارات کی ادائیگیاں نہیں کی جا رہیں اور آئندہ کی بھی امید کم ہے۔ میڈیا معاشی حساب سے خسارے میں ہے۔ اس دوران میڈیا میں کچھ تگڑے گروپ آرہے ہیں اور کچھ لوگ لائے جا رہے ہیں۔ اسکول سسٹم والے لوگ آگئے ہیں، بیکری والے آگئے ہیں۔ اور بھی طرح طرح کے لوگ آرہے ہیں۔ یہ دیکھنا ہوگا کہ یہ لوگ کیا چاہتے ہیں‘‘۔

امتیاز صاحب احتجاجی صحافت میں ہمیشہ سرگرم رہے۔ میں نے دریافت کیا کہ ’پی ایف یو جے‘ آج کل میڈیا سنسرشپ کے خلاف احتجاج کر رہی ہے۔ صحافی برادری بری طرح تقسیم ہے۔ ایک دھڑے کے احتجاج سے بھلا کیا ہوگا؟

امتیاز صاحب نے کہا کہ ’’احتجاج سے فائدہ ہو یا نہ ہو، مزاحمت ضروری ہے چاہے پانچ لوگ کریں۔ سنسرشپ کے خلاف مزاحمت کرنا، اظہار رائے کے حق کے لیے کھڑے ہونا صرف صحافی کا کام نہیں۔ یہ تمام شہریوں کا فرض ہے، یہ معاشرے کی ذمے داری ہے۔ آگہی کا حق پورے معاشرے کے لیے ہے، صرف صحافیوں کی ذمے داری نہیں ہے۔ حق اظہار ختم ہوگیا تو پھر جمہوریت کیا رہ گئی؟‘‘

واضح رہے کہ افواج پاکستان کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے چار جون 2018 کو ایک پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ پاک فوج نے کبھی کسی میڈیا گروپ کو ڈکٹیشن نہیں دی اور نہ کسی صحافی کو فوج کی مرضی کے مطابق خبر لکھنے کے لیے کہا ہے۔

XS
SM
MD
LG