بزرگ صحافی محمد ضیا الدین کے لیے صحافت ’’اک نصف صدی کا قصہ ہے، دو چار برس کی بات نہیں۔‘‘ انھوں نے 1964 میں ایم اے جرنلزم کے بعد کریئر شروع کیا اور دی مسلم، ڈان، دی نیوز اور ایکسپریس ٹربیون سمیت تقریباً تمام بڑے انگریزی اخبارات میں کام کیا۔ انھوں نے 2014 میں عملی صحافت کو خیرباد کہا۔ لیکن، کالم نگاری جاری رکھی۔
میں نے ضیا الدین صاحب سے دریافت کیا کہ پاکستان میں نیوز چینلوں کی تعداد تیس سے زیادہ ہوگئی ہے۔ پرانے چینلوں کا حال خراب ہے اور ان کے پاس ملازمین کو دینے کے لیے تنخواہیں نہیں۔ لیکن ان سے سبق سیکھنے کے بجائے اس سال بھی تین چار نئے چینل آئے ہیں۔ میڈیا میں ایسی کیا کشش ہے کہ لوگ کروڑوں روپے ڈبونے کے لیے ادھر کا رخ کر رہے ہیں؟
ضیا الدین صاحب نے کہا کہ ’’سرمایہ کار دو وجوہ کی بنا پر براڈکاسٹ میڈیا کی جانب آ رہے ہیں۔ ایک تو انھیں احساس ہوا ہے کہ میڈیا کا شعبہ بہت مضبوط ہوگیا ہے۔ اسے استعمال کرکے وہ اپنے دوسرے کاروباروں کو محفوظ اور پروموٹ کرنا چاہتے ہیں‘‘۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ تین میڈیا گروپس نے ماضی میں بہت طاقت حاصل کرلی تھی۔ جنگ جیو گروپ، ڈان گروپ اور نوائے وقت گروپ۔ ملک میں چار مارشل لا آئے لیکن یہ ادارے اسے برداشت کرگئے اور ان کے کارکن صحافی سیاسی طور پر متحرک رہے۔ وہ ریاستی اداروں کی مزاحمت اور ان پر تنقید کرنے لگے۔ ریاستی اداروں نے، خاص طور پر سیکورٹی ایجنسیوں نے کوشش کی کہ انھیں کمزور کیا جائے اور نئے لوگ سامنے لائے جائیں۔ انھیں سیکورٹی ایجنسیوں کی حمایت حاصل ہو اور متبادل میڈیا گروپس بنائے جائیں۔ ان سے مالی فوائد کا بھی وعدہ کیا گیا ہوگا۔ اس کے ساتھ مستحکم میڈیا گروپس کو مالی طور پر نقصان پہنچایا گیا۔ ان کے اشتہارات کم کیے گئے اور اتنا دباؤ ڈالا گیا کہ ان کے لیے اپنے ملازمین کو وقت پر تنخواہیں دینا مشکل ہوگیا۔
واضح رہے کہ بول ٹی وی کے بارے میں ڈھکے چھپے لفظوں میں کہا جاتا تھا کہ اسے ایک ایجنسی کی حمایت حاصل ہے۔ اس نے بہت خطیر معاوضوں پر لوگ ملازم رکھے لیکن اب ملازمین کی کئی کئی ماہ کی تنخواہیں اس پر واجب الادا ہیں اور گزشتہ چند دنوں میں اس نے درجنوں ملازمین کو نکالا ہے۔
ضیا الدین صاحب نے کہا کہ بول اس کھیل میں ایک مہرے کے طور پر استعمال ہوا۔ شاید کھلاڑیوں کو ایسا لگ رہا ہوگا کہ وہ مطلوبہ مقاصد حاصل کرنے میں ناکام ہوگیا ہے اور اب ان کی توجہ دوسرے چینلوں پر ہوگئی ہوگی۔ اسی لیے بول تنخواہیں نہیں دے پارہا اور وہاں سے کارکنوں کو نکالا جارہا ہے۔
میں نے سوال کیا کہ صحافتی تنظیموں اور صحافی رہنماؤں کی سمجھ میں بھی یہ بات آرہی ہے یا نہیں کہ میڈیا کے ساتھ کیا کیا جا رہا ہے؟
ضیا الدین صاحب نے کہا کہ ’’ہاں، انھیں آگاہی ہے۔ لیکن، وہ اپنے مالی مفادات کی وجہ سے مجبور ہیں۔ کسی صحافی کو پانچ سات لاکھ روپے تنخواہ ملنے لگتی ہے تو اپنا لائف اسٹائل اس کے مطابق بڑھا لیتا ہے۔ پھر وہ پیچھے نہیں جاسکتا۔ ہمارے زمانے میں صحافیوں کی تنخواہیں کم ہوتی تھیں۔ ہم اپنا استعفا جیب میں رکھتے تھے۔ ایک ملازمت چھوڑنا اور دوسری حاصل کرنا مشکل نہیں ہوتا تھا‘‘۔
میں نے پوچھا کہ کیا متبادل میڈیا کے غبارے میں ہوا بھرنے سے کوئی فائدہ ہوا؟
ضیا الدین صاحب نے کہا کہ میسنجر کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرنے والا اپنے آپ کو نقصان پہنچا بیٹھتا ہے۔ جس متبادل میڈیا کو کھڑا کیا گیا، وہ صحافت نہیں کر رہا، بلکہ پروپیگنڈے پر چل رہا ہے۔ اس کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ ریاست اور حکومت گمراہ ہوجاتی ہے اور جھوٹ کو سچ سمجھنے لگتی ہے۔ پھر وہ غلطیاں کرتی ہے۔ اب سیکورٹی ایجنسیاں سوشل میڈیا کو بھی استعمال کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ یہ دو دھاری تلوار ہے اور انھیں خود بھی اس کا نقصان ہوسکتا ہے۔ لیکن یہ بات ان کی سمجھ میں نہیں آرہی۔
افواج پاکستان کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے چار جون 2018 کو ایک پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ پاک فوج نے کبھی کسی میڈیا گروپ کو ڈکٹیشن نہیں دی اور نہ کسی صحافی کو فوج کی مرضی کے مطابق خبر لکھنے کے لیے کہا ہے۔ لیکن اگلے سانس میں انھوں نے الزام لگایا تھا کہ بعض صحافی سوشل میڈیا پر ملک دشمن تبصرے کرتے ہیں اور آئی ایس آئی ان کی نگرانی کررہی ہے۔