بھارت کی شمالی ریاست ہماچل پردیش میں خواتین کو ،روزگار کا ایک نیا ذریعہ مل گیا ہے ،وہ صنوبر کے درختوں سے گرنے والے پتوں کو جھاڑ کر انکی باریک ٹہنیوں کو صاف کر کے اکٹھا کر لیتی ہیں اور انہیں دستکاری کے نمونوں میں ڈھال کر بیچتی ہیں ،جس سے انہیں معقول آمدنی مل جاتی ہے اور دوسری طرف درختوں کے گرد جمع ہونے والی خشک ٹہنیاں اور پتے بھی صاف ہو جاتے ہیں ،جو شدید گرم موسم میں ،جنگلوں میں لگنے والی آگ کے لئے ایندھن کا کام کرتے ہیں۔
جیسے ہی موسم گرما شروع ہوتا ہے ، ہماچل پردیش کے علاقے ، منڈی کے علاقے میں کچھ خواتین اکٹھی ہو کر قریب کے جنگل میں صنوبر کے درختوں سےجھڑنے والے خشک پتوں کی لکڑی کی سوئیوں جیسی باریک ٹہنیوں کو اکٹھا کرتی ہیں اورنہیں بڑے بڑے بنڈلوں میں باندھ کر گھر لے آتی ہیں۔ اس کے بعد وہ انہیں پانی میں گلیسرین کے ساتھ ابالتی ہیں تاکہ ان میں چمک آجائے ۔ پھر انہیں خشک کرنے کے بعد رنگتی ہیں اور مختلف رنگدار دھاگوں کی شکل دے کر ان سے ہاتھ سے مصنوعات تیار کرتی ہیں ،مثلاٍ پین اسٹینڈ، ٹرے، روٹی رکھنے کی ٹوکری اور کوسٹرز ۔یہ دستکاری کی مہارت ہے جسے انہوں نے ایک مختصر تربیتی کورس کے بعد حاصل کیا ہے۔
ہمالیہ کے ان پہاڑوں میں، جہاں زیادہ تر خاندان کھیتی باڑی کی معمولی آمدنی پر انحصار کرتے ہیں، یہ کام پہلی بار ان کو اضافی آمدنی مہیا کر رہا ہے
منڈی کے علاقے میں خواتین کو تربیت فراہم کرنے والا یہ منصوبہ محکمہ جنگلات کے تعاون سے تقریباً ایک سال قبل شروع کیا گیا تھا جس کے دو مقاصد تھے ، مقامی خواتین کو روزگار فراہم کرنا اور جنگل میں لگنے والی آگ کے خطرے کو کم کرنا۔
جنگل میں صفائی کے آپریشن سے صنوبر کی ان جھاڑیوں سے چھٹکارا مل جاتا ہے جن میں گرمیوں میں خشک ہونے پر بہت تیزی سےآگ لگ سکتی ہے۔یہ ایک ایسا مسئلہ تھا جس سے حکام طویل عرصے سے نمٹنے کی کوشش کر رہے تھے۔
منڈی میں جنگلات کے ڈپٹی کنزرویٹر ،واسو ڈوگر نے حال ہی میں وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ہمارا بنیادی مسئلہ جنگل میں لگنے والی آگ کے مسئلے کو حل کرنا تھا ۔ان کا کہنا تھا کہ ،حالانکہ یہ منصوبہ مسائل کا مکمل حل نہیں ہے لیکن پھر بھی اس سے مجموعی معیشت اور گھرانوں کی آمدنی میں اضافہ ہو رہا ہے۔
خواتین کے اس منصوبے کے پروجیکٹ آفیسر ،جیتن شرما کا کہنا تھا کہ "جب ہم عوام کو اعتماد میں لیتے ہیں، تو اس سے بیداری پیدا ہوتی ہے اور انہیں ذمہ داری کا احساس ملتا ہے۔ شدید گرم موسم میں جنگلوں کی آگ سے بچنے کے لئے ، جھاڑیاں اکٹھی کرنا مقامی کمیونٹیز کو خطے کے ماحول سے متعلق آگاہ کرنے کا ایک مؤثر طریقہ ہے۔ لیکن مون سون کے مہینوں میں، ہم خواتین کو درخت لگانے کی مہم میں حصہ لینے کی ترغیب دیتے ہیں تاکہ جنگلوں کے تنزل پذیر علاقوں کو بحال کیا جا سکے۔
دستکاری کی مصنوعات کو مارکیٹ میں فروخت کرنا بھی ایک مشکل مرحلہ ہوتا ہے لیکن مقامی میلوں اور کالج کیمپس میں انہیں ماحول دوست مصنوعات کے طور پر فروغ دیا جارہا ہے۔ ایک قریبی کالج نے حال ہی میں ایک بڑا آرڈر دیا ہے جس نے خواتین کو حوصلہ دیا۔
آمدنی میں اضافہ جہا ں ،آسودگی لا رہا ہے وہیں ،خواتین میں ایک شعور بھی بیدار ہو رہا ہے ،وہ اب بینک کا ؤنٹ کھول رہی ہیں ،تاکہ کچھ آمدنی کو پس انداز کر کے،اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت پر خرچ کر سکیں۔
حکام کا کہنا ہے کہ ایک ایسی ریاست میں جو ایک سیاحتی مقام ہے وہ کوشش کر رہے ہیں کہ کارپوریشنز، سرکاری ایجنسیوں اور ہوٹلوں تک خواتین کی رسائی ہو جائے ، تاکہ وہ زیادہ سے زیادہ آرڈر حاصل کر سکیں۔ ایک مصروف شاہراہ پر ایک بڑا سٹور بھی بنایا گیا ہے ،جہاں ان مصنوعات کی نمائش کی جائیگی۔
ملازمتیں پیدا کرنے کے لیے جدوجہد کرنے والے ملک میں، خاص طور پر دور دراز علاقوں میں، اس طرح کے کاروباری کام کو ترقی کا راستہ سمجھا جاتا ہے۔ بھارت کے 1.4 ارب لوگوں میں سے صرف 10% کے پاس باقاعدہ ملازمتیں ہیں۔
جیتن شرما کا کہنا تھا کہ بھارت میں، زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اپنا کاروبار کرنے کی ضرورت ہے۔اس سے خواتین کو بااختیار بنانے کا مقصد بھی پورا ہوتا ہے۔