رسائی کے لنکس

جیل میں قیدِ تنہائی میں ہوں، کرنل صاحب سب کچھ کنٹرول کرتے ہیں؛ عمران خان کا چیف جسٹس سے مکالمہ


فائل فوٹو
فائل فوٹو
  • سپریم کورٹ میں نیب ترامیم کیس پر انٹرا کورٹ اپیلوں کی گزشتہ سماعت میں بھی عمران خان اڈیالہ جیل سے ویڈیو لنک سے شریک ہوئے تھے۔
  • چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ اس کیس کی سماعت کر رہا ہے۔
  • عدالتی کارروائی کے دوران سابق وزیرِ اعظم عمران خان ویڈیو لنک کے ذریعے اڈیالہ جیل سے عدالت میں پیش ہوئے۔
  • سماعت میں ابتدائی دو گھنٹوں کے دوران عمران خان کو بات کرنے کا موقع نہیں ملا۔
  • چیف جسٹس سے مکالمے کے دوران عمران خان نے کہا کہ جیل میں قید تنہائی میں ہوں۔

سپریم کورٹ میں نیب ترامیم کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسی سے مکالمہ کرتے ہوئے سابق وزیرِ اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ اڈیالہ جیل میں قیدِ تنہائی میں ہوں۔ جیل میں سب کچھ کرنل صاحب کنٹرول کرتے ہیں۔ کیس کی تیاری کے لیے کسی قانونی شخص سے معاونت ضروری ہے۔ وکلا سے ملنے نہیں دیا جاتا۔

سپریم کورٹ میں نیب ترامیم کیس حکومتی کی اپیلوں پر سماعت جمعرات کو ہوئی۔

سپریم کورٹ میں نیب ترامیم کیس پر انٹرا کورٹ اپیلوں کی گزشتہ سماعت میں بھی عمران خان اڈیالہ جیل سے ویڈیو لنک سے شریک ہوئے تھے۔ اس سے قبل ہونے والی سماعت تو سپریم کورٹ کے یو ٹیوب چینل پر براہِ راست نشر کی گئی تھی البتہ گزشتہ سماعت اور جمعرات کو ہونے والی سماعت براہ راست نشر نہیں کی گئی۔

سپریم کورٹ کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ اس کیس کی سماعت کر رہا ہے۔ بینچ میں جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس اظہر رضوی شامل ہیں۔

جمعرات کو بھی عدالتی کارروائی کے دوران سابق وزیرِ اعظم عمران خان ویڈیو لنک کے ذریعے اڈیالہ جیل سے عدالت میں پیش ہوئے۔

نیب ترامیم کیس میں سماعت میں ابتدائی دو گھنٹوں کے دوران عمران خان کو بات کرنے کا موقع نہیں ملا۔ سابق وزیرِ اعظم تسبیح پڑھتے رہے جب کہ بعض أوقات سامنے رکھی فائلوں کو پڑھتے اور کچھ نوٹس لیتے رہے۔

سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور سابق وزیرِ اعظم عمران خان کے درمیان پہلا با ضابطہ مکالمہ اس وقت ہوا جب چیف جسٹس نے ان سے استفسار کیا کہ ’’خان صاحب آپ خود دلائل دینا چاہیں گے یا خواجہ حارث پر انحصار کریں گے؟‘‘

جس کے جواب میں عمران خان نے جواب دیا کہ وہ خود دلائل دینا چاہتے ہیں جس کے لیے ان کو آدھے گھنٹے کا وقت درکار ہے۔

عمران خان نے کہا کہ ان کو تیاری کے لیے نہ تو مواد فراہم کیا جاتا ہے اور نہ ہی وکلا سے ان کی ملاقات کرنے دی جاتی ہے۔

سابق وزیرِ اعظم نے کہا کہ ’’قید تنہائی میں ہوں۔‘‘

اس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آپ کو مواد بھی فراہم کیا جائے گا اور وکلا سے ملاقات بھی ہو گی۔ اگر آپ قانونی ٹیم کی خدمات لیں گے تو پھر آپ کو نہیں سنا جائے گا۔

اس پر عمران خان نے کہا کہ کیس کی تیاری کے لیے کسی قانونی شخص سے معاونت تو ضروری ہے۔

انہوں نے کہا کہ وہ خواجہ حارث اور ایک دو دیگر وکلا سے ملنا چاہتے ہیں۔

'آپ سے شاید دوبارہ بات کا موقع نہ ملے'

عمران خان نے بینچ کو آگاہ کیا کہ آٹھ فروری اور انسانی حقوق کی پامالیوں پر میری دو درخواستیں زیرالتوا ہیں۔ اس لیے آپ سے بات کرنے کا موقع شاید دوبارہ نہ ملے۔

اس پر چیف جسٹس نے سابق وزیرِ اعظم سے استفسار کیا کہ ان کیسز میں آپ کے وکیل کون ہیں؟ جس پر عمران خان نے جواب دیا کہ حامد خان ان کے وکیل ہیں۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ حامد خان کو معلوم ہے کیسز کیسے جلدی مقرر کرائے جاتے ہیں۔ آج کیس نیب ترامیم کے حوالے سے ہے۔

عمران خان نے کہا کہ اڈیالہ میں سب کچھ کرنل صاحب کنٹرول کرتے ہیں۔ پہلے بھی وکلا سے ملنا چاہتا تھا۔ لیکن ممکن نہیں ہوا۔ انہوں نے عدالت سے استدعا کی کہ وکلا سے ملاقاتوں کا حکم جاری کیا جائے۔

واضح رہے کہ پاکستان کی فوج ماضی میں ایسے الزامات کو مسترد کرتی رہی ہے۔ فوج کا یہ مؤقف رہا ہے کہ اس کا سیاسی یا قانونی معاملات سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

سابق وزیرِ اعظم کو مخاطب کرتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کے سامنے ہی حکم نامہ لکھوائیں گے۔

قبل ازیں عدالتی کارروائی لائیو دکھانے کے حوالے سے بینچ کے رکن جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ مقدمہ پہلے لائیو دکھایا جاتا تھا تو اب بھی اس کو لائیو نشر ہونا چاہیے۔

خیبر پختونخوا کے ایڈووکیٹ جنرل کا بھی کہنا تھا کہ ہہ مقدمہ عوامی مفاد اور دلچسپی کا ہے۔

تاہم چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ یہ ٹیکنیکل کیس ہے اس میں عوامی مفاد کا معاملہ نہیں۔

ایک موقع پر بینچ عدالتی کارروائی کی لائیو اسٹریمنگ پر مشاورت کے لیے اٹھ کر چلا گیا تھا۔

وقفے کے بعد سپریم کورٹ میں کیس کی سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو کیس کی کارروائی لائیو دکھانے کے حوالے سے معاملہ بینچ کے ارکان میں چار ایک کے تناسب سے مسترد کر دیا گیا۔ واضح رہے کہ خیبر پختونخوا کے ایڈووکیٹ جنرل نے کارروائی لائیو دکھانے کی درخواست کی تھی۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ جلد بازی میں کوئی فیصلہ نہیں کرنا چاہتے۔ سب نے اپنی رائے کا اظہار کیا ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ کارروائی لائیو دکھانے کے حق میں تھے۔ باقی چار ججوں نے اس کے خلاف فیصلہ دیا۔

حکومت کے وکیل مخدوم علی خان روسٹرم پر آئے اور دلائل دیتے ہوئے کہ نیب ترامیم کرنا حکومتی پالیسی کا فیصلہ ہے۔ عدلیہ مداخلت نہیں کرسکتی۔ پارلیمنٹ کے اختیارات میں عدلیہ مداخلت نہیں کرسکتی۔

جمعرات کو ہونے والی سماعت میں وفاقی حکومت کے وکیل مخدوم علی خان نے دلائل مکمل کر لیے تھے۔

بعد ازاں سپریم کورٹ نے نیب ترامیم کیس کی سماعت آئندہ ہفتے تک ملتوی کر دی۔

چیف جسٹس عمرعطا بندیال کا دور کیسا رہا؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:07:08 0:00

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ سماعت کے لیے تاریخ کا اعلان شیڈول دیکھ کر کیا جائے گا۔

واضح رہے کہ گزشتہ برس ستمبر میں سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے نیب ترامیم کے خلاف سابق وزیرِ اعظم عمران خان کی درخواست پر محفوظ شدہ فیصلہ سنایا تھا۔

یہ فیصلہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے اپنی ریٹائرمنٹ سے قبل جاری کیا تھا۔

اس فیصلے میں عدالت نے نیب ترامیم کی بیشتر شقیں کالعدم قرار دیتے ہوئے ترامیم سے قبل قومی احتساب بیورو (نیب) میں چلنے والے مقدمات بحال کر دیے تھے۔

حکومت نے اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں انٹرا کورٹ اپیل دائر کی تھی۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں بینچ نے اکتوبر 2023 میں انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت کرتے ہوئے نیب عدالتوں کو زیرِ سماعت مقدمات کے حتمی فیصلوں سے روک دیا تھا۔

XS
SM
MD
LG