رسائی کے لنکس

نریندر مودی کے الیکشن مہم کے دوران 80 انٹرویوز، کیا وزیرِ اعظم کو اس کا فائدہ ہو گا؟


فائل فوٹو
فائل فوٹو
  • بھارت میں انتخابی مہم کے دوران وزیرِ اعظم نریندر مودی نے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کو 80 انٹرویوزدیے۔
  • سیاسی مبصرین کی جانب سے سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ مودی نے جہاں اتنے انٹرویو دیے وہیں کانگریس رہنما راہل گاندھی نے ایک بھی انٹرویو کیوں نہیں دیا؟
  • کچھ مبصرین کا کہنا ہے کہ وزیرِ اعظم نے انٹرویوز کی مدد سے عوام سے رابطہ قائم کرنے کی کوشش کی ہے۔
  • بعض مبصرین کا خیال ہے کہ انتخابی مہم کے دوران انٹرویوز دینے کا کوئی خاص فائدہ نہیں ہوتا۔

نئی دہلی—بھارت کے دارالحکومت نئی دہلی میں اس وقت سیاسی و صحافتی حلقوں میں جہاں لوک سبھا انتخابات کا ممکنہ نتیجہ موضوع گفتگو ہے، وہیں انتخابی مہم کے دوران وزیرِ اعظم نریندر مودی کے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کو دیے گئے 80 انٹرویوز کا معاملہ بھی زیرِ بحث ہے۔

یہ سوال بھی اٹھایا جا رہا ہے کہ جہاں مودی نے اتنے انٹرویو دیے ہیں، وہیں سینئر کانگریس رہنما راہل گاندھی نے ایک بھی انٹرویو کیوں نہیں دیا؟

سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ انتخابی مہم کے دوران انٹرویو کے لیے وقت نکالنا مشکل ہوتا ہے۔ اس کے باوجود وزیرِ اعظم مودی کے اتنے زیادہ انٹرویوز حیرت زدہ کر دیتے ہیں۔

وزیرِ اعظم نے یہ انٹرویو نیشنل میڈیا کو بھی دیے۔ علاقائی اخباروں اور نشریاتی اداروں پر بھی ان کے انٹرویو شائع اور نشر ہوئے۔

علاقائی زبانوں کے میڈیا اداروں کی جانب سے کیے جانے والے سوالوں کے جواب بھی مودی نے ہندی میں دیے جن کا ترجمہ کرکے پیش کیا گیا۔

وزیرِ اعظم نریندر مودی، سونیا گاندھی، راہل گاندھی اور پرینکا گاندھی کا انٹرویو کرنے والی سینئر صحافی اور نشریاتی ادارے ’سی این این نیوز18‘‘ میں سینئر ایڈیٹر پلوی گھوش کا کہنا ہے کہ وزیرِ اعظم نے انٹرویوز کی مدد سے عوام سے رابطہ قائم کرنے کی کوشش کی ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں پلوی گھوش کا کہنا تھا کہ وزیرِ اعظم مودی پر ہمیشہ یہ الزام لگتا رہا ہے کہ وہ پریس کانفرنس یا میڈیا سے بات نہیں کرتے۔ لہٰذا انہوں نے نہ صرف نیشنل میڈیا کو انٹرویوز دیے بلکہ مقامی زبانوں کے میڈیا اداروں کو بھی دیے ہیں۔ ان انٹرویوز کا ایک مقصد جہاں عوام سے رابطہ قائم کرنا ہے وہیں اس الزام کا جواب بھی دینا ہے۔

ان کے مطابق ان کے انٹرویوز کی خاص بات یہ رہی کہ جس ریاست میں انتخابات ہونے والے تھے، انہوں نے اسی ریاست میں اور مقامی زبان کے کسی میڈیا ادارے کو انٹرویو دیا۔

کچھ مبصرین کا خیال ہے کہ انتخابی مہم کے دوران انٹرویوز دینے کا کوئی خاص فائدہ نہیں ہوتا۔ کیوں کہ عوام پہلے سے ہی ایک ذہن بنا چکے ہوتے ہیں۔ بعض مبصرین کے نزدیک کچھ ووٹرز ایسے بھی ہوتے ہیں جو پہلے سے کوئی فیصلہ کرنے کے بجائے پولنگ سے عین قبل فیصلہ کرتے ہیں۔ لہٰذا ان انٹرویوز کا کچھ تو فائدہ ہوتا ہی ہے۔

پلوی گھوش کہتی ہیں کہ انتخابی مہم کے دوران لوگ بڑے رہنماؤں کے انٹرویوز کو پڑھتے، سنتے اور دیکھتے ہیں۔ اخباروں اور نیوز چینلوں کو دیے جانے والے انٹرویوز سوشل میڈیا کے توسط سے وائرل ہوتے ہیں، وائس ایپ گروپوں میں شیئر ہوتے ہیں۔ لہٰذا اس کا فائدہ تو ہوتا ہے اور جتنے زیادہ انٹرویوز دیے جائیں گے عوام کے اتنا ہی قریب پہنچا جا سکے گا۔

واضح رہے کہ کانگریس کے سینئر رہنما راہل گاندھی نے اس انتخابی مہم کے دوران نیشنل میڈیا کو ایک بھی انٹرویو نہیں دیا۔ ان کا جھکاؤ سوشل میڈیا کی جانب زیادہ ہے۔

وہ الزام عائد کرتے ہیں کہ مودی نے جتنے بھی انٹرویوز دیے ہیں ان کے سوال و جواب پہلے سے طے شدہ تھے۔ بلکہ انہوں نے انٹرویو کرنے والے صحافیوں کو ’چمچہ‘ قرار دیا ہے۔

کانگریس کا دعویٰ ہے کہ وزیرِ اعظم مودی کے بیشتر انٹرویوز وزیرِ اعظم کے دفتر پی ایم او میں ہوئے ہیں۔ لائٹ، کیمرہ، ایڈیٹنگ، سوال، جواب سب کچھ پی ایم او کا تھا۔

کانگریس کے مطابق انٹرویو کرنے والے خالی ہاتھ جاتے تھے اور انٹرویو کرکے خالی ہاتھ واپس آجاتے تھے۔ بعد ازاں پی ایم او سے ایڈیٹیڈ انٹرویوز بھیج دیے جاتے۔

بعض صحافیوں نے اس کی تردید کی ہے۔ ایک نشریاتی ادارے ’نیوز24‘ کے اینکر پرسن مانک گپتا نے اس بارے میں ایک سینئر صحافی اجیت انجم کے الزام کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ ان کا لیا ہوا انٹرویو فکسڈ نہیں تھا۔

کانگریس کے سابق رکن پارلیمان شمیم ہاشمی کے سابق میڈیا مینیجر اور سینئر صحافی سید رومان ہاشمی کا کہنا ہے کہ انتخابی مہم کے دوران کیے جانے والے انٹرویوز کا اثر سیاست دان اور اس سے کیے جانے والے سوال و جواب پر ہے۔ یعنی کس سیاست دان کا انٹرویو کیا گیا، کیا سوال پوچھا گیا اور جواب کیا دیا گیا۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ اگر کوئی سیاسی رہنما غیر اہم ہے اور اس سے سوال بھی غیر اہم کیے جا رہے ہیں تو اس کا کوئی اثر نہیں پڑتا۔ ان کے مطابق مودی سے کیے جانے والے تمام انٹرویوز تقریباً ایک جیسے ہیں۔

ان کے بقول ان انٹرویوز میں اسی طرح کے سوال کیے گئے جیسے کہ ایک بار فلم اداکار اکشے کمار نے کیا تھا اور مودی سے پوچھا تھا کہ آپ آم کاٹ کر کھاتے ہیں یا چوس کر۔

ان کےمطابق ان انٹرویوز میں بھی اسی قسم کے سوالات ہیں کہ آپ تھکتے کیوں نہیں۔ آپ کے اندر اتنی طاقت کہاں سے آتی ہے۔ لہٰذا ان انٹرویوز کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔

ان کا کہنا تھا کہ ان انٹرویوز سے وزیرِ اعظم مودی کو نقصان پہنچا ہے۔ ان کے بارے میں جو یہ ایک عام تاثر ہے کہ وہ ایک ڈکٹیٹر کے مانند حکومت کرتے ہیں۔ ان انٹرویوز سے یہ تاثر اور مستحکم ہوا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ان کے انٹرویوز دیکھنے والے یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ صحافی ان سے کیسے سوال کر رہے ہیں۔ کیا وہ سخت اور مشکل سوال ہیں یا پھر ان کو خوش کرنے والے سوالات ہیں۔ ان کے مطابق سوالات بھی کمزور ہیں اور جوابات بھی کمزور ہیں۔

بعض سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ وزیرِ اعظم کے انٹرویوز سے کانگریس کا یہ الزام ختم نہیں ہو جاتا کہ وہ پریس کانفرنس نہیں کرتے۔ انہوں نے انٹرویوز 80 دے دیے اور اپنے پسندیدہ چینلوں اور صحافیوں کو دیے۔ لیکن پریس کانفرنس ایک بھی نہیں کی۔

یاد رہے کہ سینئر صحافی رویش کمار نے اپنے یوٹیوب پلیٹ فارم ’رویش کمار آفیشل‘ پر مودی کے انٹرویوز پر ایک پروگرام میں کہا کہ اتنے سارے انٹرویوز میں سے اسٹوری کوئی نہیں نکل رہی ہے، صرف انٹرویو دیے جا رہے ہیں۔ رومان ہاشمی کے مطابق یہ انٹرویوز دونوں کی قابلیت پر سوال کھڑا کرتے ہیں۔

سال 2019 کی انتخابی مہم کے موقع پر راہل گاندھی کا انٹرویو کرنے والی پلوی گھوش نے اپنی ایک رپورٹ میں لکھا ہے کہ راہل نے 2019 کے انتخابات کے بعد انٹرویو کی ہر درخواست کو یہ کہہ کر مسترد کر دیا کہ ان کے پاس میڈیا کو بتانے کے لیے کچھ نہیں ہے۔

پلوی گھوش کے خیال میں راہل گاندھی کے نیشنل میڈیا کو انٹرویو نہ دینے کی سب سے بڑی وجہ عدم اعتماد ہے۔ انھیں نیشنل میڈیا پر، کوئی بھروسہ نہیں رہا۔ کانگریس کا یہ بھی خیال ہے کہ راہل کے امیج کو خراب کرنے میں نیشنل میڈیا کا بڑا ہاتھ ہے۔

خیال رہے کہ 2014 کے بعد کے نیشنل میڈیا کو ’گودی میڈیا‘ کا خطاب رویش کمار نے دیا جو اب بہت مقبول ہو گیا ہے۔

بعض تجزیہ کاروں کے مطابق راہل گاندھی سوشل میڈیا اور یو ٹیوبرز پر زیادہ بھروسہ کرتے ہیں۔ انہوں نے انتخابات سے کچھ پہلے نئی دہلی میں یوٹیوبرز کے ایک گروپ سے ملاقات کی تھی اور ان سے دوبارہ ملنے کا وعدہ کیا تھا۔ لیکن پھر ایسی کوئی ملاقات نہیں ہو سکی۔

بعض مبصرین کے مطابق یہ انتخاب ڈیجیٹل انتخاب زیادہ ہیں۔ اسی لیے راہل گاندھی سوشل میڈیا پر زیادہ سرگرم ہیں۔

پلوی گھوش اور سید رومان ہاشمی دونوں کی رائے ہے کہ سوشل میڈیا سے عوام کو زیادہ متاثر کیا جا سکتا ہے بہ نسبت الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے۔ نیوز چینلوں کی رپورٹس بھی سوشل میڈیا پر پوسٹ کی جاتی ہیں۔ ان کو ناخواندہ شخص بھی دیکھ اور سن سکتا ہے۔

جہاں تک انتخابی مہم میں سرگرمی کی بات ہے تو وزیرِ اعظم مودی راہل گاندھی کے مقابلے میں کہیں زیادہ آگے ہیں۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق 30 مئی تک وزیرِ اعظم مودی کے روڈ شوز، ریلیوں اور عوامی تقریروں کی تعداد 180 تک پہنچ گئی جب کہ راہل گاندھی نے اب تک صرف 60 عوامی ریلیاں کی ہیں۔

مودی یومیہ دو تین ریلیوں سے خطاب کرتے ہیں۔ انہوں نے بعض مخصوص مواقع پر ایک دن میں پانچ پانچ ریلیاں کی ہیں جب کہ راہل گاندھی ایک دن میں صرف ایک یا دو ریلی کرتے ہیں۔

کانگریس کے مطابق اس کی دو وجوہات ہیں۔ ایک تو کانگریس کے پاس وسائل کی کمی ہے اور دوسرے اس نے ڈیجیٹل میڈیا پر زیادہ انحصار کیا ہے۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG