امریکی ایوانِ نمائندگان کی اسپیکر نینسی پلوسی کا کہنا ہے کہ کانگریس، کیپٹل ہل پر ہونے والے ہلاکت خیز حملے کی تحقیقات کے لیے نائن الیون طرز کا کمیشن تشکیل دے گی۔
پلوسی نے کہا کہ کمیشن تحقیقات کرے گا اور حقائق سامنے لائے گا کہ چھ جنوری کو کیپٹل ہل پر ان کے بقول اندرونی دہشت گرد حملے اور پرامن انتقالِ اقتدار کے عمل میں رکاوٹ کی وجوہات کیا تھیں۔
ڈیمو کریٹک پارٹی کے ساتھیوں کے نام خط میں پلوسی نے کہا کہ ایوانِ نمائندگان، کیپٹل ہل کی سیکیورٹی بڑھانے کے لیے اضافی رقوم صرف کرے گا۔
سینیٹ سے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف مواخذے کی تحریک مسترد ہونے کے بعد ری پبلکنز اور ڈیمو کریٹس کی جانب سے چھ جنوری کے واقعات کی غیر جانبدرانہ تحقیقات کے لیے حمایت بڑھتی جا رہی ہے۔
ان حملوں کے بارے میں تحقیقات کا منصوبہ پہلے بنایا جا چکا تھا اور اس ماہ کے آخر میں سینیٹ رولز کمیٹی کے سامنے ایک سماعت بھی ہونی ہے۔ پلوسی نے لیفٹننٹ جنرل (ریٹائرڈ) رسل آنرے کو کیپٹل ہل کی سیکیورٹی کا ازسرنو جائزہ لینے کی ذمہ داری بھی سونپی تھی۔
پیر کو اپنے خط میں پلوسی کا کہنا تھا کہ "ہمیں اس بارے میں سچ کا پتا ہونا چاہیے کہ یہ سب کیسے رونما ہوا۔"
انہوں نے مزید کہا کہ "جنرل آنرے کی عبوری رپورٹ سے بھی یہ بات واضح ہے کہ اراکین کے تحفظ اور کیپٹل ہل کی سیکیورٹی کے لیے اضافی اقدامات ضروری ہیں۔"
دونوں جماعتوں سے تعلق رکھنے والے اراکینِ کانگریس نے اتوار کو نیوز شوز میں گفتگو کے دوران اشارہ دیا تھا کہ اس معاملے کی مزید تحقیقات بھی ممکن ہو سکتی ہیں۔
سینیٹ نے ہفتے کو 57 کے مقابلے میں 43 ووٹوں کے ساتھ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف مواخذے کی کارروائی میں ان کو بری کر دیا تھا۔ ان کے خلاف فیصلے کے لیے درکار دو تہائی ووٹوں میں سے 10 ووٹ کم تھے۔ سینیٹ کی جانب سے الزامات سے بری کیے جانے کے باوجود چھ جنوری کو ہونے والے حملوں سے متعلق بحث تاحال جاری ہے۔
ریاست لوزیانا سے تعلق رکھنے والے ری پبلکن سینیٹر بل کیسیڈی اُن سات ری پبلکنز قانون سازوں میں شامل تھے جنہوں نے ٹرمپ کے خلاف ووٹ دیا تھا۔ اُن کا کہنا ہے کہ جو کچھ ہوا اس کی مکمل تحقیقات کی ضرورت ہے اور وہ سابق صدر کو جواب دہ ٹھہرانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
نائن الیون کے حملے کی تحقیقات کرنے والے کمیشن کی طرز پر کمیشن بنانے کے لیے قانون سازی کی ضرورت بھی پڑ سکتی ہے۔ یہ کمیشن اگلے درجے کی تحقیقات کرے گا اور اس کو واقعات کے تعین میں حکومت کی مدد حاصل ہو گی۔ لیکن اس سے دونوں جماعتوں میں سیاسی تقسیم میں اضافے اور صدر بائیڈن کے قانون سازی کے ایجنڈے کے پس منظر میں چلے جانے کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کے حامی سمجھے جانے والے ری پبلکن سینیٹر لنزے گراہم نے بھی ایک بیان میں اعتراف کیا تھا کہ ٹرمپ پر کسی حد تک کیپٹل ہل پر ہونے والے حملے کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔
البتہ، سینیٹر گراہم نے کہا کہ وہ 2022 میں مڈ ٹرم انتخابات کے لیے ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ مل کر مہم چلانے کے لیے تیار ہیں تاکہ ری پبلکنز کانگریس میں برتری حاصل کر سکیں۔
خیال رہے کہ امریکی جمہوریت کی علامت سمجھے جانے والی عمارت کیپٹل ہل پر چھ جنوری کو اس وقت سابق صدر ٹرمپ کے حامیوں نے دھاوا بول دیا تھا جب قانون ساز بائیڈن کی کامیابی کی توثیق کے لیے جمع تھے۔
ہنگامہ آرائی، توڑ پھوڑ اور تشدد کے ان واقعات میں ایک پولیس اہلکار سمیت پانچ افراد ہلاک ہو گئے تھے۔