ٹوئٹر انتظامیہ کا کہنا ہے کہ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا ٹوئٹر اکاؤنٹ مستقل طور پر بند کر دیا گیا ہے۔ حتیٰ کہ اگر وہ دوبارہ امریکہ کے صدر بھی بن گئے پھر بھی ٹوئٹر استعمال نہیں کر سکیں گے۔
بدھ کو امریکی نشریاتی ادارے 'سی این بی سی' کو دیے گئے انٹرویو میں ٹوئٹر کے چیف فنانشل آفیسر (سی ایف او) نیڈ سیگل کا کہنا تھا کہ اگر سابق صدر نے 2024 کا صدارتی الیکشن لڑا اور اس میں کامیاب بھی ہو گئے پھر بھی اُن کا ٹوئٹر اکاؤنٹ بند رہے گا۔
اُن کا کہنا تھا کہ "ہماری پالیسیاں اس طرح کی ہیں کہ اگر آپ کو ایک مرتبہ اس پلیٹ فارم سے ہٹا دیا گیا ہے تو چاہے آپ کمنٹیٹر ہوں، سی ایف او ہوں یا سابق یا موجودہ عہدے دار، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، آپ کو پلیٹ فارم دستیاب نہیں ہو گا۔"
خیال رہے کہ ٹوئٹر نے چھ جنوری کو کیپٹل ہل میں سابق صدر ٹرمپ کے حامیوں کے حملے کے بعد اُن کی جانب سے تشدد کے لیے اُکسانے کے خدشات کے بعد اُن کا ٹوئٹر اکاؤنٹ بند کر دیا تھا۔
نیڈ سیگل کا کہنا تھا کہ "ہم اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ ہمارا پلیٹ فارم تشدد کو بڑھاوا دینے یا فساد پھیلانے کے لیے استعمال نہ ہو۔ اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو ہم فوراً اکاؤنٹ بند کر دیتے اور وہ صارف دوبارہ ہمارا پلیٹ فارم استعمال نہیں کر سکتا۔"
ٹوئٹر کے اعلیٰ عہدے دار کا یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب سابق صدر ٹرمپ کے خلاف امریکی سینیٹ میں مواخذے کی کارروائی جاری ہے۔
اگر سابق صدر کو الزامات سے بری کر دیا گیا تو اُن پر دوبارہ صدارتی الیکشن لڑنے یا کوئی اور وفاقی عہدہ رکھنے کی ممانعت نہیں ہو گی۔
ٹوئٹر کے شریک بانی جیک ڈورسی نے گزشتہ ماہ ایک بیان میں کہا تھا کہ اُنہوں نے ڈونلڈ ٹرمپ کا اکاؤنٹ بند کر کے بالکل درست فیصلہ کیا۔ تاہم یہ مثال قائم ہونے پر اُنہیں پریشانی ہے۔
سابق صدر ٹرمپ نے ٹوئٹر کی جانب سے اُن کا اکاؤنٹ مستقل طور پر بند کرنے پر ایک اور اکاؤنٹ سے ٹوئٹ کرتے ہوئے الزام لگایا تھا کہ ٹوئٹر ملازمین اُن کے سیاسی مخالفین کے ساتھ مل کر اُن کے خلاف سازش میں ملوث ہیں۔
ٹرمپ کا مؤقف تھا کہ ٹوئٹر آزادیٔ اظہار پر قدغن لگانے کے عمل میں مسلسل آگے بڑھ رہا ہے اور اس نے ڈیموکریٹس کے ساتھ مل کر مجھے خاموش کرنے کی کوشش کی ہے۔
ٹوئٹر نے یہ سابق صدر کے اس متبادل اکاؤنٹ سے کی گئی ان ٹوئٹس کو بھی ڈیلیٹ کر دیا تھا۔ سابق صدر کے زیرِ استعمال مذکورہ اکاؤنٹ کے محض کچھ ہی فالورز تھے۔
ٹرمپ کے وکلا کا مؤقف ہے کہ سابق صدر نے اپنے حامیوں کو کیپٹل ہل پر حملے کے لیے نہیں اُکسایا تھا بلکہ اُنہوں نے صرف یہ کہا تھا کہ وہ انتخابی نتائج بدلنے کے لیے اپنی لڑائی جاری رکھیں گے۔
سینیٹ میں اُن کے مواخذے کے ٹرائل کے دوران اپنے دلائل میں ٹرمپ کے وکلا کا کہنا ہے کہ سابق صدر نے جب کیپٹل ہل کے مناظر دیکھے تو اُنہیں دھچکہ لگا۔ ٹرمپ کے وکلا کے بقول ٹرمپ نے فوری طور پر صورتِ حال کو کنٹرول کرنے کے لیے انتظامیہ کو احکامات دیے تھے۔
ٹرمپ کے وکلا اور کئی ری پبلکن سینیٹرز کا یہ مؤقف ہے کہ سابق صدر کو مواخذہ غیر آئینی ہے۔ کیوں کہ اب وہ عہدے پر نہیں ہیں۔
ٹوئٹر کے علاوہ یوٹیوب نے بھی سابق صدر کا چینل معطل کر دیا تھا جب کہ 'فیس بک' اور 'انسٹا گرام' نے بھی سابق صدر کے اکاؤنٹس غیر معینہ مدت تک کے لیے بلاک کر دیے تھے۔
چھ جنوری کو کیپٹل ہل پر ہونے والی ہنگامہ آرائی کے دوران پانچ افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ سابق صدر کے خلاف مجمعے کو اُکسانے اور تشدد کو بڑھاوا دینے کے الزامات کے تحت سینیٹ میں مواخذے کی کارروائی کا سامنا ہے۔
سابق صدر کے عہدہ چھوڑنے سے ایک ہفتہ قبل امریکی ایوانِ نمائندگان نے اُن کے خلاف مواخذے کی منظوری دے دی تھی۔ وہ امریکی تاریخ کے پہلے صدر ہیں جنہیں دوسری مرتبہ مواخذے کی کارروائی کا سامنا ہے۔