بھارت اور اسرائیل نے خلائی میدان میں تعاون بڑھانے اور باہمی تجارت میں اضافے سمیت سات معاہدوں پر دستخط کردیے ہیں۔
معاہدوں پر دستخط دونوں ملکوں کے اعلیٰ حکام نے بدھ کو تل ابیب میں ایسے وقت کیے جب بھارت کے وزیرِ اعظم نریندر مودی اسرائیل کے اپنے پہلے دورے پر ہیں۔
وزیرِاعظم مودی نے بدھ کو اپنے اسرائیلی ہم منصب بینجمن نیتن یاہو اور صدر ریون ریولن سے ملاقات کی اور اقتصادی و دفاعی تعاون بڑھانے اور انسدادِ دہشت گردی سمیت متعدد امور پر تبادلہ خیال کیا۔
ملاقات کے بعد دونوں وزرائے اعظم کی جانب سے جاری ایک مشترکہ بیان میں کہا گیا ہے کہ، "ہماری بات چیت صرف باہمی امور پر ہی مرکوز نہیں رہی بلکہ ہم نے انسداد دہشت گردی پر بھی تبادلہ خیال کیا جس سے عالمی امن و استحکام کو خطرہ لاحق ہے۔ ہم نے اس بارے میں باہمی تعاون پر رضامندی بھی ظاہر کی ہے۔"
اس موقع پر دونوں وزرائے اعظم نے صنعتی شعبے میں ٹیکنالوجی کو ترقی دینے کے لیے 40 ملین ڈالر کے ایک مشترکہ فنڈ کے قیام کا بھی اعلان کیا۔
اس سے قبل اسرائیلی صدر سے ملاقات کے موقع پر نریندر مودی نے دونوں ملکوں میں باہمی قربت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے ایک جملہ ”آئی فار آئی“ ادا کیا یعنی ”اسرائیل فار انڈیا، انڈیا فار اسرائیل۔“
اس موقع پر اسرائیلی صدر نے مودی کا گرم جوشی سے استقبال کرتے ہوئے کہا کہ دونوں ملک ایک دوسرے کے زبردست حلیف ثابت ہوں گے۔
نریندر مودی اسرائیل کا دورہ کرنے والے بھارت کے پہلے وزیر اعظم ہیں اور اس لیے یہودی مملکت میں ان کا شاندار استقبال ہو رہا ہے۔
مودی جب منگل کی سہ پہر تل ابیب کے بین الاقوامی ہوائی اڈے پر اترے تھے تو نیتن یاہو نے ان کا ریڈ کارپیٹ استقبال کیا تھا۔
اس موقع پر ہونے والی مختصر تقریب میں نیتن یاہو نے اپنے خیر مقدمی کلمات میں مودی کو مخاطب کرتے ہوئے ہندی میں ”آپ کا سواگت ہے میرے دوست“ بھی کہا۔
اپنے خطاب میں نیتن یاہو کا مزید کہنا تھا، "ہم گزشتہ 70 برسوں سے آپ کا انتظار کر رہے تھے۔ بلا شبہ یہ ایک تاریخی دورہ ہے۔"
مودی کے دورۂ اسرائیل پر بھارت میں سب کی نظریں لگی ہوئی ہیں۔ بڑے بڑے بھارتی اخبارات میں کئی کئی صفحات کے اشتہارات شائع کیے جا رہے ہیں اور نیوز چینلوں پر مباحثوں اور یروشلم سے براہِ راست رپورٹنگ کا سلسلہ بھی جاری ہے۔
لیکن بھارتی وزیر اعظم کے فلسطینی اتھارٹی کے مرکز راملہ نہ جانے پر تجزیہ کاروں، دانشوروں اور بعض سیاست دانوں نے اظہار افسوس کیا ہے۔
سینئر تجزیہ کار اور مسلم پولیٹیکل کونسل کے صدر ڈاکٹر تسلیم رحمانی نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس دورے سے بھارت کے بجائے اسرائیل کو فائدہ ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ اسرائیل چاہتا ہے کہ وہ بھارت کی سرزمین کے ذریعے جنوبی ایشیا میں اپنے قدم جما سکے۔ ان کے بقول اسرائیل بھارت کے کندھے پر بندوق رکھ کر ساوتھ چائنا سی کے سیاسی توازن کو بگاڑنے کی کوشش کر رہا ہے۔
ڈاکٹر تسلیم نے وزیر اعظم مودی کے راملہ نہ جانے پر اظہارِ افسوس کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل کے محاصرے کا شکار فلسطینی علاقے غزہ کی قیادت کو مکمل طور پر نظرانداز نہیں کیا جا سکتا جہاں ان کے بقول 18 لاکھ فلسطینی قید کی زندگی گزار رہے ہیں۔
ڈاکٹر تسلیم کا کہنا تھا کہ بھارت ہمیشہ مظلوموں کے لیے آواز اٹھاتا رہا ہے اور اسرائیل کے دورے دوران غزہ کے لوگوں کو نظرانداز کرنا بھارت کی دیرینہ خارجہ پالیسی کی شدید مخالفت ہے۔
دیگر بہت سے تجزیہ کاروں نے بھی وزیرِاعظم مودی کی جانب سے دورے کے دوران فلسطینی قیادت کو نظر انداز کرنے کو فلسطین سے متعلق بھارت کے موقف میں تبدیلی قرار دیا ہے۔
جبکہ حکومت کا موقف ہے کہ بھارت کی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے اور بھارت فلسطینی کاز کی حمایت جاری رکھے گا۔
ادھر فلسطین کے شہر راملہ میں بھارتی قونصل خانے کے باہر اسرائیل کی حمایت کرنے پر بھارت کے خلاف مظاہرہ بھی ہوا ہے۔