پاکستان نے کہا ہے کہ بھارت میں دہشت گردی کے واقعات میں ہندو انتہا پسند عناصر کے ملوث ہونے کی تصدیق کے باوجود تحقیقات سے قبل ہی ہر مرتبہ ایسے واقعات کے ’’بے بنیاد‘‘ الزامات آئی آیس آئی پر لگانے پر ان کا ملک بھارتی حکومت کی معذرت کا منتظر ہے۔
وفاقی مشیر داخلہ رحمٰن ملک نے بدھ کو اسلام آباد میں ایک نیوز کانفرنس سے خطاب میں بھارتی سر زمین پر 2006ء سے اب تک پیش آنے والے دہشت گردی کے پانچ بڑے واقعات کی تحقیقات کی دستاویز کی نقول پیش کرتے ہوئے کہا کہ ہر مرتبہ بھارتی پولیس اس نیتجہ پر پہنچی ہے کہ حملہ آوروں کا تعلق انتہا پسند ہندو تنظیموں سے تھا۔
جن واقعات کی انھوں نے نشاندہی کی ان میں 2006ء اور 2008ء میں بھارت کے میلہ گاؤں میں بم دھماکے، 2007ء میں سمجھوتہ ایکسپریس پر حملہ اور اسی سال مَکہ مسجد اور اجمیر شریف کی درگارہ میں بم دھماکے شامل ہیں۔
مشیر داخلہ نے کہا کہ ممبئی حملوں میں بھی تین بھارتی شہری ملوث پائے گئے مگر ان میں سے دو کو ’’ٹھوس شواہد برآمد‘‘ ہونے کے سرکاری دعوؤں کے باوجود رہا کر دیا گیا جو پاکستان کی حکومت اور یہاں کی عوام کے لیے تعجب کا باعث بنا ہے۔
انھوں نے اپنی نیوز کانفرنس بھارتی وزیر داخلہ پی چدمبرم کے ان دعوؤں کے جواب میں کی ہے جن کے مطابق نومبر 2008ء میں ممبئی میں کی گئی دہشت گردی کی کارروائی کی تحقیقات کے سلسلے میں حال ہی میں جس مشتبہ شخص کو گرفتار کیا گیا ہے اُس نے بھارتی تفتیش کاروں کے سامنے اعتراف کیا ہے کہ حملہ آوروں کو ریاست پاکستان کی پشت پناہی حاصل تھی۔
رحمٰن ملک نے کہا کہ بھارتی حکام کو ہر مرتبہ آئی ایس آئی پر ایسے واقعات کا ’’بے بنیاد‘‘ الزام لگا کر دو طرفہ تعلقات کو خراب کرنے کی بجائے سلامتی کے اپنے داخلی نظام پر نظرثانی کی ضرورت ہے تاکہ وہاں موجود اُن عناصر کی نشاندہی ہو سکے جو دہشت گردی کی ان کاروائیوں میں معاونت کر رہے ہیں۔
اُنھوں نے کہا کہ پاکستان بھی دہشت گردوں کے نشانے پر ہے اور بھارت بھی ایسی ہی صورت حال سے دوچار ہے اس لیے الزام تراشی کا سلسلہ ترک کر کے دونوں کو ملکوں کو مل کر اس لعنت سے نمٹنے کی ضرورت ہے اور ان کا ملک اس سلسلے میں ہر ممکن تعاون کے لیے تیار ہے۔
’’میرے خیال میں ہندو انتہا پسندی آپ کے ملک میں پھیلتی جا رہی ہے۔ ہم طالبان کو پاکستان میں کنٹرول کرنے میں ناکام ہو گئے جس کا آج ہم خمیازہ بھگت رہے ہیں۔ برائے مہربانی آپ (اپنے ہاں اس لعنت) کے خلاف کچھ کریں۔‘‘
مشیر داخلہ نے کہا کہ پاکستان دوطرفہ معاہدوں پر پوری طرح کار بند ہے اور بھارتی ماہی گیروں کی رہائی اس کا تازہ ترین ثبوت ہے جن کے خلاف کسی بھی طرح کی عدالتی کارروائی کیے بغیر انھیں وطن واپس بھیجا جا رہا ہے۔