سیاچن گلیشئر کے تنازع کو حل کرنے کے سلسلے میں دو روزہ مذاکرات کا آغاز پیر کو راولپنڈی میں وزارت دفاع میں ہوا جس میں پاکستانی وفد کی قیادت سیکرٹری دفاع نرگس سیٹھی اور بھارتی وفد کی سربراہی اُن کے ہم منصب ششی کانت شرما کر رہے ہیں۔
سیاچن کے مسئلے پر دونوں ملکوں کے درمیان یہ تیرہواں اجلاس ہے اور اس سے قبل ہونے والے مذاکرات کے تمام ادوار نتیجہ خیز ثابت نہیں ہو سکے۔
اعلیٰ بھارتی حکام پہلے ہی متنبہ کر چکے ہیں کہ حالیہ اجلاس سے بھی زیادہ اُمیدیں وابستہ نہ کی جائیں کیونکہ ان کے بقول سیاچن ایک پیچیدہ تنازع ہے۔
ابتدائی بات چیت کے بعد دونوں وفود نے وزیرِ دفاع نوید قمر سے بھی ملاقات کی اور وزارت دفاع کے ایک ترجمان کے مطابق منگل کو اجلاس کے اختتام پر ایک مشترکہ اعلامیے میں مذاکرات میں لیے گئے فیصلوں کی تفصیلات جاری کی جائیں گی۔
سیاچن کا تنازع 1984ء میں اُس وقت شروع ہوا تھا جب کشمیر میں لائن آف کنٹرول کے شمالی سرے پر واقع اس برفانی پہاڑ پر پیش قدمی کر کے بھارتی افواج نے تین اہم دروں پر قبضہ کر کے اونچے مقامات پر چوکیوں قائم کر لیں۔
اس بھارتی اقدام کے ردعمل میں پاکستان نے بھی اپنی افواج گلیشیئر پر تعینات کر دیں اور تب سے آج تک دونوں ملکوں کے ہزاروں فوجی اس لڑائی میں کام آ چکے ہیں جب کہ سیاچن پر اپنی افواج کو تعنیات رکھنے کے لیے غربت کا شکار بھارت اور پاکستان سالانہ اربوں روپے خرچ کر رہے ہیں۔
سیاچن تنازع کے باعث ہونے والے جانی و مالی نقصانات کے بارے میں دونوں ملکوں نے چپ سادھ رکھی ہے۔ محتاط اندازوں کے مطابق دونوں جانب مجموعی طور پر 8 ہزار سے زائد فوجی مارے جا چکے ہیں۔ لیکن ان میں سات ہزار ہلاکتوں کی وجہ پاکستان اور بھارت کا مشترکہ دشمن گلیشیئر کا سخت سرد موسم ہے۔
اس برفانی پہاڑی پر دونوں ملکوں کو کس طرح کے موسمی حالات کا سامنا ہے اس کا انداز دو ماہ قبل گیاری سیکٹر میں پاکستانی فوج کے بٹالین ہیڈ کوارٹر پر برفانی تودہ گرنے کے واقعے سے لگایا جاسکتا ہے جس کے نیچے ایک سو چالیس فوجی اور عملے کے دیگر ارکان دب کر ہلاک ہوگئے اور دو ماہ سے زائد عرصہ گزرنے کے بعد بھی اب تک امدادی ٹیمیں صرف تیرہ لاشوں کو تلاش کر پائی ہیں۔
اس انسانی سانحے کے بعد خاص طور پر پاکستان میں ایک بار پھر یہ مطالبات کیے جا رہے ہیں کہ دونوں ملک سیاچن کو فوری طور پر غیر فوجی علاقہ قرار دے کر اپنی افواج کو وہاں سے واپس بلا لیں۔ خود پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی بھی اس مطالبے کی یہ کہہ کر حمایت کر چکے ہیں کہ دونوں ممالک کو زیادہ سے زیادہ مالی وسائل کا رخ اپنی عوام کی فلاح بہود کی طرف موڑنے کا وقت آ گیا ہے۔
لیکن اس کے برعکس بھارت خاص طور پر میڈیا میں بھارتی حکومت کو سیاچن پر کوئی بھی سمجھوتہ کرنے سے باز رہنے کا انتباہ کیا ہے۔
بھارت میں ناقدین سیاچن کو غیر فوجی علاقہ قرار دینے کی حمایت کر رہے ہیں بشرطیکہ پاکستان 78 کلومیٹر طویل گلیشیئر پر بھارتی کنٹرول والے حصے سے دستبردار ہو جائے لیکن پاکستانی فوجی حکام اس تجویز کو یہ کہہ کر مسترد کر چکے ہیں کہ دونوں افواج کو 1984 سے پیشتر والی پوزیشن میں جا کر تنازع کا حل ڈھونڈنا ہو گا۔
بھارت کے صف اول کے اخبار دی ہندو کے ایڈیٹر سدھارتھ ورداراجان نے بھی وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ سیاچن پر مذاکرت کے موجودہ دور کے نتائج کے بارے میں زیادہ پر امید نہیں ہیں۔
’’مذاکرات میں پیش رفت کی توقع کرنا خوش فہمی ہوگی اور اگر اس مرتبہ بھی کوئی مفید نتیجہ سامنے نہیں آتا تو دلبرداشتہ ہونے کی ضرورت نہیں۔ جلد یا بدیر بھارت اور پاکستان اس تنازع کو حل کرنے پر متفق ہو جائیں گے کیوں کہ میرے خیال میں دفاعی نکتہ نظر سے یہ مکمل طور پر ایک بے مقصد محاذ جنگ ہے۔‘‘
پاکستان کے سابق ائر کموڈور خالد اقبال کہتے ہیں کہ دونوں ملکوں کو باہمی تعلقات کو بہتر کرنے کے لیے تجارتی تعلقات کے علاوہ اداروں کی سطح پر رابطوں کو مستحکم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ مستقبل میں پھر کوئی بحران خیر سگالی کے موجودہ ماحول کو خراب نہ کرسکے۔
’’پاک بھارت تعلقات جب بھی کسی بحران سے دوچار ہوتے ہیں تو اس سے نبرد آزما ہونے کے لیے وضع کردہ نظام سب سے پہلے ریزہ ریزہ ہو جاتا ہے اور یوں کئی سالوں کی محنت رائیگاں چلی جاتی ہے۔‘‘
مبصرین عمومی طور پر اس بات پر متفق ہیں کہ پاک بھارت تجارتی و اقتصادی تعلقات میں حالیہ دنوں میں ہونے والی نمایاں پیش رفت نے ماضی کے مقابلے میں سیاچن سمیت تمام متنازع اُمور پر دو طرفہ مذاکرات کے لیے ایک سازگار اور دوستانہ ماحول فراہم کیا ہے جو برقرار رہنے کی صورت میں آگے چل کر خاص طور پر دونوں ملکوں کی افواج کے مابین باہمی اعتماد کے فقدان کو دور کرنے میں مدد دے سکتا ہے۔