حزب اختلاف کی سات جماعتوں کی جانب سے نائب صدر ایم وینکیا نائڈو کو چیف جسٹس آف انڈیا جسٹس دیپک مشرا کے خلاف تحریک موخذہ کا نوٹس دیا گیا ہے۔ بھارتی عدلیہ کی تاریخ میں یہ پہلا واقعہ ہے۔
ایک روز قبل چیف جسٹس کی سربراہی میں بینچ نے جسٹس بی ایچ لویا کی پراسرار موت کی جانچ سے متعلق مفاد عامہ کی متعدد درخواستیں خارج کرتے ہوئے جسٹس لویا کی موت کو فطری قرار دے کر تحقیقات کرانے سے انکار کر دیا تھا۔
جسٹس لویا سہراب الدین فرضی انکاونٹر معاملے کی سماعت کر رہے تھے جس میں بی جے پی صدر امت شاہ ملزم تھے۔ اسی دوران ایک شادی کی تقریب میں جسٹس لویا کی موت ہو گئی تھی۔ حزب اختلاف اور بہت سے دوسروں کے نزدیک ان کی موت مشتبہ ہے۔ ان کے بعد آنے والے جج نے امت شاہ کو بری کر دیا تھا۔
تحریک موخذہ کے نوٹس پر 71 ارکان پارلیمنٹ کے دستخط ہیں۔ چیف جسٹس پر پانچ الزامات لگائے گئے ہیں اور ان کے رویے کو ناپسندیدہ قرار دیا گیا ہے۔
ایک سابق جج جسٹس محمد سہیل اعجاز صدیقی نے، جو سپریم کورٹ کے رجسٹرار جنرل رہ چکے ہیں، وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے تحریک موخدہ کو افسوسناک قرار دیا اور اسے حساس معاملہ قرار دیتے ہوئے تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا۔
تاہم انہوں نے یہ بھی کہا کہ بھارتی عدلیہ کو بیرونی ممالک میں بہت عزتی کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ اسے بہت جرات مند عدلیہ مانا جاتا ہے۔ جتنی مضبوط ہماری عدلیہ ہے، اتنی تو امریکہ کی بھی نہیں ہوگی۔ لیکن اب اس کی غیر جانبداری اور اس کی جرات مندی پر جو سوالیہ نشان لگائے جانے لگے ہیں وہ انتہائی تشویش ناک ہے۔ ایسا ہونا نہیں چاہیے۔ اس سے ہمارے ملک اور یہاں کی عدلیہ کے وقار پر حرف آتا ہے۔
وزیر مالیات ارون جیٹلی نے اسے حزب اختلاف کا ایک سیاسی حربہ اور عدلیہ کی آزادی کے لیے خطرہ قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کے جج کا مواخذہ اسی صورت میں کیا جا سکتا ہے جب وہ نااہل ہو یا اس کی بد اخلاقی ثابت ہو چکی ہو۔
سپریم کورٹ نے بھی اسے افسوسناک قرار دیا اور تحریک مواخذہ کی کارروائی سے میڈیا کو باز رکھنے کے لیے اٹارنی جنرل سے مشورہ طلب کیا ہے۔
نائب صدر آئینی ماہرین سے مشورہ کے بعد کوئی قدم اٹھائیں گے۔