بھارت اور چین نے آج جمعہ کے روز مزاکرات میں اس بات پر اتفاق کیا کہ سرحدی تنازعے کا حل دونوں ملکوں کے بہترین کے مفاد میں ہے۔ مزاکرات میں بھارتی وفد کی قیادت قومی سلامتی کے مشیر اجیت دوول اور چین کے وفد کی قیادت نمائیندہ خصوصی یینگ جئے چی کر رہے تھے۔
ان دونوں ملکوں کے تعلقات بعض سرحدی علاقوں کی باقاعدہ حدبندی نہ ہونے کی بنا پر اکثر مسائل کا شکار رہے ہیں اور 1962 میں دونوں ملکوں کے درمیان شدید سرحدی جنگ ہوئی تھی جو ایک ماہ تک جاری رہی جس میں بھارت کو خاصی ہزیمت اُٹھانی پڑی تھی۔
آج ہونے والی بات چیت میں دونوں فریقین نے اتفاق کیا کہ جب تک سرحدی تنازعہ مکمل طور پر طے نہیں کر لیا جاتا، اُس وقت تک سرحدی علاقوں میں امن و امان قائم رکھنا اشد ضروری ہے۔
دونوں ملکوں میں حالیہ سرحدی تنازعہ بھوٹان میں پیش آیا جب گزشتہ جون میں بھارتی فوجوں نے بھوٹان کے ڈوکلم علاقے میں چین کو ایک سڑک کی تعمیر سے روکنے کیلئے پیش قدمی کی۔ اس کے بعد 28 اگست کو دونوں ملکوں کی مسلح افواج نے محاذ آرائی ختم کر کے واپس جانے پر اتفاق کیا۔
جوہری ہتھیاروں کے حامل ان دونوں ملکوں میں مجموعی طور پر 2 ارب 60 کروڑ لوگ بستے ہیں اور ان میں سرحدی تنازعات بدستور جاری ہیں جس سے مختلف حلقوں میں تشویش کا اظہار کیا جاتا رہا ہے۔ دونوں فریقین ایک دوسرے پر اُس کے علاقے پر قبضہ کرنے کا الزام عائد کرتے ہیں۔ چین بھارت کے شمال مشرقی علاقے میں 90,000 کلومیٹر رقبے پر دعویٰ کرتا ہے۔ اُس کا کہنا ہے کہ ثقافتی طور پر یہ جنوبی تبت کا حصہ ہے۔ لہذا اسے تبت میں شامل ہونا چاہئیے۔ دوسری جانب بھارت کا کہنا ہے کہ چین نے ہمالیہ کے مغربی حصے کی سطح مرتفع اکسائے چن میں اُس کے 38,000 کلومیٹر رقبے پر قبضہ کر رکھا ہے۔
1980 کی دہائی سے اب تک دونوں ملکوں کے درمیان سرحدی تنازعے کے سلسلے میں مزاکرات کے 20 دور ہو چکے ہیں لیکن اس حوالے سے اب تک کوئی خاص پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔