بھارت نے چینی وزارتِ خارجہ کے اس بیان کی تصدیق کی ہے کہ گزشتہ سال انڈونیشیا کے شہر بالی میں جی۔ 20 کے سربراہی اجلاس کے دوران بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی نے چینی صدر شی جن پنگ سے سرحدی تنازعے پر تبادلۂ خیال کیا تھا اور باہمی تعلقات میں استحکام پر زور دیا تھا۔
واضح رہے کہ پیر کو چینی وزارت خارجہ نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ دونوں رہنماؤں کے درمیان بالی میں ہونے والی بات چیت کے دوران چین بھارت تعلقات میں استحکام کے سلسلے میں اہم اتفاقِ رائے ہوا تھا۔
اب جب کہ اگست میں جنوبی افریقہ کے شہر جوہانسبرگ میں ہونے والے برکس سربراہی اجلاس اور ستمبر میں دہلی میں ہونے والے جی۔20 سربراہی اجلاس کے دوران دونوں رہنماؤں کی ملاقات متوقع ہے، ان بیانات کو کافی اہم سمجھا جا رہا ہے۔
یاد رہے کہ جوہانسبرگ میں برکس سربراہی اجلاس 22 سے 24 اگست کے درمیان اور دہلی میں جی۔20 سربراہی اجلاس 9 اور 10 ستمبر کو ہو گا۔
خیال رہے کہ چین اور بھارت کے درمیان50 کی دہائی سے ہی سرحدی حد بندی پر تنازعات چلے آ رہے ہیں۔
ہمالیہ کے پہاڑوں میں لداخ اکسائی چن کے علاقے پر دونوں ممالک اپنا دعویٰ رکھتے ہیں اور 1962 میں اس پر دونوں ملکوں کی جنگ بھی ہو چکی ہے۔ 2020 میں وادیٔ گلوان میں بھی جھڑپ ہوئی تھی جس میں 20 بھارتی فوجی مارے گئے تھے جب کہ چین نے بھی اپنے فوجیوں کی ہلاکت کی تصدیق کی تھی۔
بھارت لداخ اکسائی چن کو اپنے علاقے کا حصہ ہونے کا دعویٰ کرتا ہے جب کہ بیجنگ اس دعوے کو متنازع قرار دیتا ہے اور زیادہ تر علاقے کو تبت اور اپنے مغربی سنکیانگ صوبے کے حصے کے طور پر اس کے انتظامی امور چلاتا ہے۔
اگرچہ اونچائی اور خشک حالات کی وجہ سے یہ علاقہ کافی حد تک غیر آباد ہے لیکن یہ ان دو خطوں کے درمیان اسٹرٹیجک طور پر اہم لنک فراہم کرتا ہے۔
ان علاقوں میں لائن آف ایکچوئل کنٹرول (ایل اے سی) دونوں ملکوں کے درمیان 'ڈی فیکٹو' بارڈر کا کام کرتی ہے۔
بھارتی ریاست اروناچل پردیش پر چین اپنا حق جتاتا ہے اور یہاں بھی دونوں ملکوں کے درمیان سرحدی کشیدگی پائی جاتی ہے۔
مودی، شی ملاقات
بھارتی وزارتِ خارجہ کے ترجمان ارندم باگچی نے جمعرات کو اپنی ہفتہ وار پریس بریفنگ کے دوران تصدیق کی تھی کہ وزیر اعظم مودی اور صدر شی جن پنگ نے بالی میں ملاقات کی اور باہمی تعلقات کو مستحکم کرنے کی ضرورت پر بھی زور دیا۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ اس موقع پر دونوں رہنماؤں کی ایک دوسرے کو وِش کرتے اور مختصر گفتگو کرتے ہوئے تصاویر تو سامنے آئی تھیں۔ لیکن فریقین نے یہ نہیں بتایا تھا کہ دونوں میں سرحدی تنازعے یا باہمی تعلقات کے سلسلے میں کوئی اتفاق رائے بھی ہوا ہے۔
گلوان جھڑپ کے بعد دونوں رہنماؤں کی وہ پہلی ملاقات تھی۔
مبصرین کے مطابق یہ واضح نہیں ہے کہ اگر دونوں رہنماؤں میں باہمی تعلقات کے استحکام کے سلسلے میں کوئی اتفاق رائے ہوا تھا تو فریقین کے بیانات میں اس کا ذکر کیوں نہیں کیا گیا تھا۔ اب جب کہ چینی وزارت خارجہ نے اس سلسلے میں بیان دیا تب بھارت نے اس کی تصدیق کی ہے۔
جی ٹوئنٹی اجلاس
عالمی امور کے سینئر تجزیہ کار اسد مرزا کہتے ہیں کہ بھارت چاہتا ہے کہ جی۔ 20 کا اجلاس کامیاب رہے۔ اجلاس اسی وقت کامیاب سمجھا جائے گا جب گروپ کے تمام ارکان اس میں شرکت کریں۔ خاص طور پر بھارت چاہتا ہے کہ چینی صدر شی جن پنگ اس میں ضرور شریک ہوں۔ کیوں کہ اگر وہ شریک نہیں ہوں گے تو بھارت چین سرحدی تنازع اور انڈو پیسفک کی صورتِ حال کے پیش نظر اجلاس کی کامیابی پر سوالیہ نشان لگ جائے گا۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ ابھی تک چین سے ایسا کوئی اشارہ نہیں ملا جس سے شی جن پنگ کی شرکت کو مشکوک سمجھا جائے۔
وہ بھی دیگر تجزیہ کاروں کی طرح بھارت کے بیان کو ستمبر میں دہلی میں ہونے والے جی۔ 20 سربراہی اجلاس کے تناظر میں دیکھ رہے ہیں۔ ان کے مطابق بھارت کے رویے میں نرمی کی وجہ یہ ہے کہ اجلاس سے قبل ایک سازگار ماحول بنایا جائے۔
دیگر مبصرین کے خیال میں وزارتِ خارجہ کے ترجمان کے بیان کا جائزہ لیں تو اس سے یہی تاثر ملتا ہے کہ بھارت سرحدی تنازع اور دیگر تنازعات کے باوجود ماحول کو خوشگوار رکھنا چاہتا ہے۔
ایک سوال کے جواب میں ارندم باگچی نے کہا کہ جی۔20 اجلاس اب زیادہ دور نہیں ہے۔ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے ہماری پوری کوشش اور تیاری ہے کہ گروپ کے تمام مدعو ارکان اس میں شرکت کریں اور اجلاس کامیاب ہو۔
اس وقت بھارت گروپ بیس کا صدر ہے اور دہلی اجلاس کے موقع پر وزیر اعظم مودی یقینی طور پر چینی صدر سے دوطرفہ امور پر تبادلۂ خیال کریں گے۔ اسی طرح اگر مودی جوہانسبرگ کے برکس اجلاس میں شرکت کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ دونوں رہنماؤں میں دوسری ملاقات ہو گی۔
اسد مرزا کہتے ہیں کہ ابھی گزشتہ ہفتے چین کی وزارتِ خارجہ میں ایک بڑی تبدیلی آئی ہے۔ وزارت خارجہ کے ترجمان کو نیا وزیر خارجہ مقرر کیا گیا ہے۔ بھارت چاہے گا کہ وہاں کے نئے وزیر خارجہ بھی اجلاس میں شرکت کریں۔
ان کے مطابق دونوں ملک خطے کی سیاست کے پیشِ نظر اور اس وجہ سے بھی کہ وہ خود کو ابھرتی ہوئی عالمی طاقت کی حیثیت سے منوانا چاہتے ہیں بہت غور و فکر کے بعد اپنی حکمتِ عملی مرتب کر رہے ہیں۔
اسد مرزا کے بقول مغرب بھارت کے ساتھ ہے۔ کیوں کہ وہ چین کو ایک عالمی معاشی طاقت کی حیثیت سے نہیں دیکھنا چاہتا۔ لیکن بہرحال حالیہ دنوں میں بھارت کی جانب سے چین کے متعلق کوئی سخت بیان سامنے نہیں آیا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ جی۔20 اجلاس میں روسی صدر ولادیمیر پوٹن کی شرکت مشکوک معلوم ہوتی ہے۔ اگلے ماہ جوہانسبرگ برکس اجلاس میں پوٹن نے خود کہا ہے کہ چونکہ ان کے خلاف بین الاقوامی عدالت انصاف نے وارنٹ جاری کر رکھا ہے اس لیے وہ اس میں شرکت نہیں کریں گے۔
ان کے مطابق اگر جی۔20 اجلاس میں پوٹن شریک نہیں ہوتے ہیں تو اس سے اجلاس کی کامیابی پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔
دریں اثنا بھارت نے اروناچل پردیش کے تین ووشو کھلاڑیوں کو اسٹیپل ویزا جاری کرنے پر سخت ردعمل دیتے ہوئے اسے ناقابل قبول قرار دیا اور ان کھلاڑیوں کو چین جانے سے روک دیا۔
اندم باگچی نے کہا کہ ہم نے اس معاملے پر چین کے سامنے سخت احتجاج کیا ہے اور اس سلسلے میں اپنے مؤقف کا اعادہ کیا ہے۔
اسد مرزا کہتے ہیں کہ چین کی جانب سے اروناچل پردیش کے شہریوں کو اسٹیپل ویزا دینے کا تنازع بہت پرانا ہے۔ وہ چوں کہ اروناچل پردیش پر اپنا دعویٰ کرتا ہے اس لیے وہ وہاں کے شہریوں کو اسٹیمپ ویزا یا ای ویزا کے بجائے اسٹیپل ویزا دیتا ہے۔ بھارت اس کے اس قدم کی ہمیشہ مخالفت کرتا رہا ہے۔
تاہم ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ معاملہ باہمی تعلقات میں کشیدگی کا باعث نہیں بنے گا اور نہ ہی جی۔20 اجلاس میں شی جن پنگ کی شرکت پر اس سے کوئی اثر پڑے گا۔
واضح رہے کہ چین کے شہر شینگدو میں 28 جولائی سے آٹھ اگست تک ورلڈ یونیورسٹی گیم ہو رہا ہے جس میں بھارت کی 12 رکنی ٹیم جانے والی تھی۔ جس میں آٹھ کھلاڑی، ایک کوچ اور تین اہل کار شامل تھے۔
ان کھلاڑیوں کو جمعرات کی رات ایک بجے طیارے پر سوار ہونا تھا لیکن جب وہ ایئرپورٹ پہنچے تو انھیں واپس جانے کا کہا گیا۔ اس سے قبل بھی چین کی جانب سے اروناچل پردیش کے کھلاڑیوں کو اسٹیپل ویزے جاری کیے گئے تھے جس پر بھارت نے سخت اعتراض کیا تھا اور ان کھلاڑیوں کو چین جانے سے روک دیا تھا۔
اسی درمیان اپوزیشن جماعت کانگریس نے مودی شی ملاقات سے متعلق وزارتِ خارجہ کے ترجمان کے بیان پر ردِعمل ظاہر کرتے ہوئے حکومت سے سوال کیا ہے کہ چین کے ساتھ کن معاملات پر اتفاقِ رائے ہوا ہے یا رعایت دی گئی ہے۔
پارٹی کے جنرل سیکرٹری جے رام رمیش نے ایک ٹویٹ میں کہا کہ کیا لداخ کے دیپسانگ اور ڈیمچوک سے چینی فوجیوں کو دونوں ملکوں کے درمیان اتفاق رائے کے بعد واپس بلا لیا جائے گا۔
کانگریس کے بیان پر حکومت کی جانب سے تاحال کوئی ردِعمل سامنے نہیں آیا ہے۔