پاکستان نے کہا ہے کہ بھارت کی طرف سے صوفی بزرگ خواجہ نظام الدین اولیا کے عرس میں شرکت کے خواہشمند پاکستانیوں کو ویزے جاری نہ کیے جانے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اسے باہمی معاہدے کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔
ہفتہ کو اسلام آباد میں دفترخارجہ سے جاری ایک بیان میں ترجمان ڈاکٹر محمد فیصل کا کہنا تھا کہ بھارت نے ان 192 پاکستانی زائرین کو عین وقت پر ویزے جاری کرنے سے انکار کیا جو یکم جنوری سے آٹھ جنوری تک جاری رہنے والے عرس میں شرکت کے لیے دہلی جانا چاہ رہے تھے۔
ان کے بقول یہ دورہ پاکستان اور بھارت کے درمیان 1974ء میں طے پانے والے ایک معاہدے کے تحت ہونا تھا جس میں ایک دوسرے کے شہریوں کو مذہبی سیاحت کے لیے سہولت دینے کا کہا گیا تھا۔
ترجمان کا کہنا تھا کہ یہ ویزے جاری نہ کرنا باہمی پروٹوکول اور مذہبی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ پاکستان نے رواں سال سکھوں کے گرو ارجن دیو اور مہاراجہ رنجیت سنگھ کی برسیوں کے موقع پر سکھ یاتریوں کے لیے ایک خصوصی ٹرین بھارت بھیجنے کی پیشکش کی تھی لیکن ترجمان کے بقول بھارت کی طرف سے اس ضمن میں جواب میں تاخیر سے ہزاروں سکھ اس موقع پر پاسکتان آنے سے محروم رہے۔
سکھوں کے علاوہ ہندوؤں کے بھی کئی مقدم مقامات پاکستان میں ہیں اور ہر سال بھارت سمیت دنیا بھر سے ان مذاہب سے تعلق رکھنے والے افراد کی ایک قابل ذکر تعداد پاکستان آتی ہے۔
بھارت کی طرف سے یہ ویزے جاری نہ کرنے اور اس پر پاکستان کے بیان پر تاحال کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا لیکن اسلام آباد کی طرف سے یہ بیان ایک ایسے وقت سامنے آیا ہے جب رواں ہفتے ہی پاکستان نے سزائے موت کے مرتکب مبینہ بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیوو سے اس کی اہلیہ اور والدہ کی اسلام آباد میں خصوصی طور پر ملاقات کروائی تھی۔
اس ملاقات کے بعد بھارت کی طرف سے پاکستان پر الزام عائد کیا گیا کہ انھوں نے ان دونوں خواتین کے ساتھ مناسب رویہ نہیں اپنایا اور سکیورٹی کے نام پر ان کے مذہبی جذبات کو بھی مبینہ طور پر مجروح کیا گیا۔
تاہم پاکستان نے ان دعوؤں کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ ملاقات انسانی ہمدردی کی بنیاد پر کروائی گئی لیکن سلامتی کے خدشات کے پیش نظر ہر ممکن اقدام کو مدنظر رکھا جانا ضروری تھا۔
دو روز قبل ہی پاکستان نے اپنے قید بھارتی ماہی گیروں میں سے 145 کو جذبہ خیرسگالی کے طور پر رہا کیا تھا۔