بھارت کے وزیرِ اعظم نریندر مودی کی حکومت کے منظور کردہ متنازع زرعی قوانین کے خلاف شروع ہونے والی کسانوں کی تحریک کو چھ ماہ مکمل ہو گئے ہیں۔ کسانوں کا مطالبہ ہے کہ یہ قوانین، چوں کہ ان کے مفادات کے خلاف ہیں، لہٰذا حکومت انہیں واپس لے اور جب تک ان کا یہ مطالبہ پورا نہیں ہوتا یہ احتجاج جاری رہے گا۔
البتہ، حکومت کا مؤقف ہے کہ زرعی قوانین کسانوں کے مفاد میں ہیں۔ اس لیے وہ انہیں واپس نہیں لے گی۔ تاہم، وہ اس میں ترمیم کرنے کو تیار ہے۔
بھارت کی حکومت اور کسانوں کے درمیان بات چیت کے 12 ادوار ہو چکے ہیں لیکن اب تک یہ بات چیت بے نتیجہ رہی ہے اور 22 جنوری کے بعد سے مذاکرات کا سلسلہ بھی بند ہے۔
حکومت نے ستمبر 2020 میں زرعی قوانین کی منظوری دی تھی جس کے بعد 26 نومبر 2020 سے کسان ہریانہ اور اتر پردیش سے متصل سنگھو، ٹکری اور غازی پور سرحدوں پر ہزاروں کی تعداد میں جمع ہو کر احتجاج کر رہے ہیں۔
'ڈیفیٹ بی جے پی' کا نیا نعرہ
کسانوں کے اس احتجاج کو 26 مئی کو چھ ماہ مکمل ہونے پر ان مقامات کے علاوہ ملک کے دیگر حصوں میں بھی کسانوں نے سیاہ پرچم لہرائے۔
کسان رہنماؤں کا دعویٰ ہے کہ پورے ملک میں 10 ہزار مقامات پر یومِ سیاہ منایا گیا۔
اٹھائیس مئی کو احتجاج کے مرکزی مقام سنگھو بارڈر پر 40 کسان تنظیموں کے وفاق سمیوکت کسان مورچہ (ایس کے ایم) کا ایک اجلاس منعقد ہوا جس میں 2022 میں اترپردیش سمیت پانچ ریاستوں میں ہونے والے اسمبلی انتخابات میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے خلاف انتخابی مہم چلانے کا فیصلہ کیا گیا۔
ایک کسان تنظیم 'آل انڈیا کسان سبھا' کے جنرل سیکریٹری اور ایس کے ایم کی ورکنگ کمیٹی کے ایک رکن اتل کمار انجان نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ اس اجلاس میں، بقول ان کے، ''ڈیفیٹ بی جے پی: مشن اترپردیش'' کا نعرہ دیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ اس کسان تنظیم کا قیام 1936 میں ہوا تھا۔
ان کے مطابق، اس سے قبل مغربی بنگال کے اسمبلی انتخابات میں بھی کسان تنظیموں اور ان کے رہنماؤں نے بی جے پی کے خلاف مہم چلائی تھی۔ اس وقت ایس کے ایم کا نعرہ تھا: ''ڈیفیٹ بی جے پی: پنش بی جے پی'' (یعنی بی جے پی کو ہراؤ اور اسے سزا دو)۔
اتل کمار انجان نے بتایا کہ "کسانوں نے ہر قسم کا موسم جھیل لیا ہے اور وہ پیچھے ہٹنے والے نہیں۔ ہم نے 2024 تک تحریک چلانے کا منصوبہ بنایا ہے۔"
بنگال کے بعد یو پی الیکشن پر کسانوں کی نظر
ان کا کہنا ہے کہ کرونا وبا کی وجہ سے اس وقت بہت کم ٹرینیں چل رہی ہیں۔ جب ٹرینیں چلنے لگیں گی تو وہ دوسری ریاستوں سے لاکھوں کی تعداد میں کسانوں کو دہلی سے متصل ہریانہ اور اترپردیش کے سرحدی مقامات پر جمع کر دیں گے۔
انہوں نے کہا کہ کسانوں کی مہم کی وجہ سے بی جے پی کو مغربی بنگال میں شکست ہوئی ہے اور وہ اب اترپردیش سمیت دیگر پانچ ریاستوں میں بھی ہارے گی۔ اس موقع پر انہوں نے اترپردیش میں حال ہی میں ہونے والے پنچایت انتخابات کا حوالہ دیا جس میں بی جے پی کو شکست ہوئی ہے۔
ایک اور کسان رہنما رمضان چوہدری نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ کرونا وبا کی وجہ سے ابھی کسان تحریک کو زیادہ تیز نہیں کیا جا رہا۔ وبا ختم ہونے کے ساتھ ہی اسے پورے ملک میں پھیلا دیا جائے گا۔
ان کا کہنا ہے کہ مغربی بنگال کے اسمبلی اور اترپردیش کے پنچایت انتخابات میں شکست کی وجہ سے بی جے پی میں اضطراب پیدا ہو گیا ہے اور متعدد بی جے پی رہنما خود اس بات کو محسوس کرنے لگے ہیں کہ اگر کسان تحریک ختم نہیں ہوئی تو پارٹی کو انتخابی نقصان ہو سکتا ہے۔
'حکومت صرف ووٹ کی طاقت سمجھتی ہے'
آل انڈیا کسان سبھا کے ایک دوسرے رہنما اور کمیونسٹ لیڈر حنان ملا نے چند روز قبل میڈیا سے گفتگو میں کہا تھا کہ حکومت کی سرد مہری نے کسانوں کو اس کے خلاف انتخابی مہم چلانے پر مجبور کر دیا ہے۔ حکومت صرف ووٹ کی طاقت سمجھتی ہے اس لیے کسانوں نے اسے انتخابی شکست دینے کا فیصلہ کیا ہے۔
تاہم، وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ چوں کہ کسان تنظیمیں سیاسی تنظیمیں نہیں اس لیے وہ کسی سیاسی جماعت کی حمایت نہیں کریں گی اور نہ ہی کسی پارٹی کے حق میں مہم چلائیں گی۔ ان کے بقول، ان کی مہم بی جے پی کے خلاف رہے گی کسی پارٹی کے حق میں نہیں۔
ان کے مطابق، کسان تنظیموں نے ان پانچ ریاستوں میں پنچایتیں کی تھیں جن میں اسمبلی انتخابات ہو رہے تھے اور انہوں نے مغربی بنگال، تمل ناڈو اور کیرالہ میں بی جے پی کو اقتدار میں آنے سے روک دیا۔
رمضان چوہدری اور اتل کمار انجان کا بھی یہی دعویٰ ہے کہ کسانوں کی مہم کی وجہ سے ہی حالیہ انتخابات میں بی جے پی کو شکست ہوئی اور اب آئندہ ہونے والے اسمبلی انتخابات پر بھی اس تحریک کا اثر پڑے گا۔
ان کے خیال میں روایتی طور پر بی جے پی کی حامی کئی برادریوں نے اتر پردیش کے پنچایت انتخابات میں بی جے پی کے خلاف ووٹ دیے۔
بھارتیہ کسان یونین کے ترجمان راکیش ٹکیت نے میڈیا سے گفتگو میں دعویٰ کیا کہ "ہم نے 2024 تک کی منصوبہ بندی کر رکھی ہے۔ ہم نہ صرف اسمبلی انتخابات بلکہ پارلیمانی انتخابات میں بھی بی جے پی کے خلاف مہم چلائیں گے۔"
تجزیہ کاروں کی رائے
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ مغربی اترپردیش میں کسان تحریک اور مشرقی اترپردیش میں مبینہ طور پر کرونا وبا سے مناسب انداز میں نہ نمٹنے کی وجہ سے عوام میں بی جے پی حکومت کے خلاف ماحول بن رہا ہے۔
سینئر تجزیہ کار آلوک موہن کا کہنا ہے کہ بی جے پی کو بھی آئندہ ریاستی انتخابات میں متوقع شکست کا احساس ہے۔ اس لیے اترپردیش کابینہ میں رد و بدل پر غور کیا جا رہا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ممکن ہے کہ یوگی آدتیہ ناتھ کو وزیرِ اعلیٰ کے عہدے سے ہٹا کر کسی اور کو یہ ذمہ داری سونپ دی جائے یا یہ بھی ممکن ہے کہ کچھ وزرا کو ہٹا دیا جائے۔
سینئر تجزیہ کار اور 'رورل انڈیا ڈاٹ ان' کے چیف ایڈیٹر ہرویر سنگھ نے وائس آف امریکہ سے بات چیت میں کہا کہ حالیہ دنوں میں ہونے والے انتخابات کے دوران کسان تحریک کے اثر کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔
وہ بھی اس رائے کی تائید کرتے ہیں کہ آنے والے انتخابات میں بی جے پی کو مزید شکست کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
ان کے بقول شدید سردی، بارش اور گرمی جیسے حالات میں بھی چھ ماہ تک اس تحریک کا چل جانا بھارت کی تاریخ کا ایک بڑا واقعہ ہے۔ شاید ہی کوئی اور تحریک اتنی طویل مدت تک اور پُرامن انداز میں چلی ہو۔
ان کے مطابق اس سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ حکومت کے خلاف کسانوں کی ناراضی اب بھی قائم ہے۔
ہرویر سنگھ کے خیال میں چھ ماہ تک اس تحریک کے چلنے کی وجہ سے کسانوں کی خود اعتمادی میں اضافہ ہوا ہے اور ان کی طاقت بڑھی ہے۔
البتہ آلوک موہن کہتے ہیں کہ حکومت اور کسان تنظیموں کے درمیان 22 جنوری کے بعد سے مذاکرات کا سلسلہ بند ہے۔ حکومت کا یہ خیال تھا کہ وہ بات چیت نہیں کرے گی تو یہ تحریک یا تو یوں ہی ختم ہو جائے گی یا پھر تشدد کا راستہ اختیار کر لے گی۔ لیکن، ان کے بقول، حکومت کی یہ سوچ غلط ثابت ہوئی ہے۔
تاہم، ہرویر سنگھ کا کہنا ہے کہ 26 جنوری کے لال قلعہ کے واقعہ کے بعد ایسا لگ رہا تھا کہ یہ تحریک ختم ہو جائے گی لیکن ایسا نہیں ہوا بلکہ وہ دوبارہ زندہ ہو گئی۔
یاد رہے کہ 26 جنوری کو ہزاروں کسان ٹریکٹروں کے ذریعے دہلی میں داخل ہوگئے تھے اور بڑی تعداد میں لال قلعہ کی فصیل پر چڑھ گئے تھے۔ انہوں نے وہاں سکھ مذہب کا جھنڈا ''نشان صاحب'' بھی لہرا دیا تھا۔
ہرویر سنگھ کے بقول، انہوں نے 25 مئی کو غازی پور بارڈر پر جا کر کسان رہنماؤں سے ملاقات کی تھی۔ وہاں جتنے بھی خیمے ہیں، ان کے بقول، ان میں نوجوانوں کی اکثریت ہے اور یہ بات اس تحریک کو تقویت فراہم کرتی ہے۔
ان کے مطابق، یو پی کے پنچایت انتخابات میں دیکھا گیا کہ جاٹ برادری کا کوئی بھی شخص بی جے پی سے ٹکٹ لے کر لڑنے کے لیے تیار نہیں تھا۔ لوگوں میں بہت ناراضگی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ اب جو صورتِ حال ہے اس میں حکومت کو سوچنا پڑے گا کہ وہ کسانوں کی اس ناراضگی کو یوں ہی قائم رہنے دیتی ہے یا پھر کوئی درمیان کا راستہ نکالتی ہے۔
ان کے مطابق، اس تحریک کا منفی اثر حکومت، بی جے پی اور آر ایس ایس پر بھی پڑ رہا ہے۔ لہٰذا، ان کا خیال ہے کہ حکومت کو بات چیت کی میز پر آنا پڑے گا۔
وزیر اعظم کے نام کسانوں کا خط
کسان تنظیموں کی جانب سے 21 مئی کو وزیرِ اعظم کے نام ایک خط ارسال کیا گیا ہے جس میں ان سے بات چیت دوبارہ شروع کرنے کی اپیل کی گئی ہے۔
خط میں کہا گیا تھا کہ 26 مئی کو تحریک کو چھ ماہ مکمل ہوگئے ہیں اور اتفاق سے اسی تاریخ کو مودی حکومت کے سات برس بھی مکمل ہوئے ہیں۔
خط میں مزید کہا گیا کہ ہم آپ کو یہ یاد دلانا چاہتے ہیں کہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے وزیرِ اعظم کی حیثیت سے کسانوں کے ساتھ مذاکرات کے احیا کی ذمہ داری آپ پر عائد ہوتی ہے۔
مذکورہ خط میں اس مطالبے کا اعادہ کیا گیا کہ تینوں متنازع زرعی قوانین واپس لیے جائیں اور 'منیمم سپورٹ پرائس'، ایم ایس پی (حکومت کی جانب سے اجناس کی مقرر کردہ قیمت) کو قانونی درجہ دیا جائے۔
کسانوں کے اس خط پر حکومت کی جانب سے تاحال کوئی ردِ عمل سامنے نہیں آیا۔
حکومت کا مؤقف
البتہ، اس سے قبل 20 جنوری کو ہونے والی بات چیت میں حکومت کی جانب سے مذکورہ قوانین کو ڈیڑھ برس کے لیے معطل کرنے کی تجویز پیش کی گئی تھی جسے کسانوں نے مسترد کر دیا تھا۔
وزیرِ اعظم مودی نے 30 جنوری کو ایک بیان میں کہا تھا کہ حکومت نے کسانوں کے سامنے قوانین کو معطل کرنے کی جو تجویز رکھی ہے وہ اپنی جگہ پر برقرار ہے اور وزیرِ زراعت نریندر سنگھ تومر محض ایک فون کال کی دُوری پر ہیں۔
انہوں نے آٹھ فروری کو پارلیمنٹ میں خطاب میں کسانوں سے اپیل کی تھی کہ وہ زرعی قوانین کے خلاف اپنا احتجاج ختم کر دیں۔
انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ کسان ان قوانین کو ایک موقع دیں۔ انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا تھا کہ ایم ایس پی تھی، ہے اور رہے گی۔
اس کے ساتھ ہی انہوں نے کانگریس سمیت دیگر اپوزیشن جماعتوں پر کسان احتجاج کی حمایت کرنے پر سخت تنقید بھی کی تھی۔
زرعی قوانین کے بارے میں حکومت کا مؤقف ہے کہ یہ کسانوں کے مفاد میں ہیں اور ان سے سرکاری منڈیوں میں مڈل مین سے کسانوں کو نجات مل جائے گی اور وہ اپنی اجناس نجی کھلی منڈیوں میں بھی فروخت کر سکیں گے۔
تاہم، کسانوں کا الزام ہے کہ ان قوانین کی وجہ سے زرعی شعبے پر کارپوریٹ گھرانوں کا قبضہ ہو جائے گا اور ملک میں کانٹریکٹ فارمنگ شروع ہو جائے گی جو ان کے لیے نقصان دہ ہے۔
دریں اثنا، بی جے پی نے یہ واضح کیا ہے کہ زرعی قوانین واپس نہیں ہوں گے۔ پارٹی ترجمان رمن ملک نے قطر کے نشریاتی ادارے 'الجزیرہ' سے بات کرتے ہوئے کہا کہ حکومت مذاکرات کے توسط سے قوانین میں ترمیم کے لیے تیار ہے لیکن انہیں واپس نہیں لیا جائے گا۔
انہوں نے الزام لگایا کہ سیاسی مفاد حاصل کرنے والے عناصر کسان تحریک کی پشت پر ہیں اور ایسے لوگوں کو کسانوں کی فلاح و بہبود میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔
ادھر سنگھو، ٹکری اور غازی پور سرحدوں پر کسانوں نے الگ الگ قسم کے خیمے نصب کر رکھے ہیں۔ کچھ کسان ٹن شیڈ کے نیچے رہ رہے ہیں تو کچھ پھوس کی جھوپڑی میں مقیم ہیں جب کہ کچھ لوگوں نے پختہ سائبان بنا لیے ہیں اور ان میں ایئر کنڈیشننگ کا انتظام بھی کر رکھا ہے۔