|
بھارت نے متنازع شہریت قانون کے تحت پہلی مرتبہ 14 تارکینِ وطن کو شہریت دے دی ہے۔
نئی دہلی میں بدھ کو تقریب کے دوران تارکینِ وطن کو شہریت کی اسناد دی گئیں۔
بھارت کی وزارتِ داخلہ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ تارکینِ وطن کی دستاویزات کی تصدیق کے بعد ان سے وفاداری کا حلف لیا گیا اور انہیں شہریت کے سرٹیفکیٹ دیے گئے ہیں۔
البتہ وزارتِ داخلہ نے بیان میں یہ نہیں بتایا کہ تارکینِ وطن کا تعلق کس ملک اور کس مذہب سے ہے۔
بھارت میں 2019 میں شہریت ترمیمی ایکٹ منظور ہوا تھا جس کے تحت پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش سے بھارت منتقل ہونے والے ایسے افراد بھارتی شہریت کے اہل ہیں جو اپنے ملک میں ہندو، پارسی، سکھ، بودھ، جین اور مسیحیت سے تعلق رکھنے کی بنا پر ظلم و ستم کا شکار تھے۔
وزیرِ اعظم مودی کی حکومت نے عام انتخابات سے ایک ماہ قبل ہی شہریت قانون کو نافذ کیا تھا۔ اب اس قانون کے تحت ایسے موقع پر تارکینِ وطن کو شہریت کے سرٹیفکیٹس دیے گئے ہیں جب بھارت میں عام انتخابات کا آدھا مرحلہ مکمل ہو چکا ہے اور انتخابی مہم کے دوران مذہبی تقسیم واضح ہے۔
ایک دہائی قبل پاکستان سے بھارت منتقل ہونے والے ہرش کمار نے بھارتی شہریت ملنے پر کہا کہ وہ بہت خوش ہیں اور ایسا محسوس ہو رہا ہے جیسے ان کا دوبارہ جنم ہوا ہے۔
بھارتی نشریاتی ادارے 'این ڈی ٹی وی' کی رپورٹ کے مطابق پاکستان سے بھارت آنے والی لڑکی بھاونا نے بھارتی شہریت ملنے پر کہا کہ وہ 2014 میں بھارت آئی تھیں اور اب یہاں اپنی تعلیم مکمل کریں گی۔
بھاونا نے دعویٰ کیا کہ پاکستان میں لڑکیاں تعلیم حاصل نہیں کر سکتیں اور ان کا گھروں سے نکلنا بھی مشکل ہوتا ہے۔
ان کے بقول جب وہ گھر سے باہر جاتی تھیں تو انہیں برقع لینا پڑتا تھا۔
متنازع شہریت قانون کے تحت بھارتی شہریت انہی لوگوں کو مل سکتی ہے جو 31 دسمبر 2014 سے پہلے اپنا ملک چھوڑ کر بھارت منتقل ہوئے تھے۔
اس قانون کے خلاف بھارت کے مختلف شہروں میں پرتشدد مظاہرے ہوئے تھے اور احتجاج کے نتیجے میں ہلاکتوں کے بعد حکومت نے فوری طور پر شہریت قانون پر عمل درآمد نہیں کیا تھا۔
متنازع شہریت قانون کے مخالفین اسے مسلمانوں کے خلاف قرار دیتے ہیں۔ تاہم وزیرِ اعظم مودی اور ان کی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی اس کی تردید کرتی رہی ہے۔
بھارت میں لگ بھگ 20 کروڑ مسلمان آباد ہیں جو دنیا بھر میں مسلمانوں کی تیسری بڑی تعداد ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں اور حزبِ اختلاف کی جماعتیں وزیرِ اعظم مودی کی حکومت اور ان کی جماعت بی جے پی پر تنقید کرتی ہیں کہ وہ ہندوتوا نظریے کو آگے بڑھانے کے لیے اقلیتوں کے ساتھ منظم طریقے سے امتیازی سلوک کرتی ہیں۔
وزیرِ اعظم مودی اور بی جے پی ان الزامات کی تردید کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ وہ تمام کمیونٹیز کی فلاح کے لیے کام کر رہے ہیں۔
بی جے پی انتخابات میں واضح اکثریت حاصل کر کے تیسری مرتبہ حکومت بنانے اور وزیرِ اعظم مودی تیسری مرتبہ وزارتِ عظمیٰ کا منصب سنبھالنے کے لیے پرامید ہیں۔
بھارت کے ایوانِ زیریں لوک سبھا کے 19 اپریل سے شروع ہونے والے انتخابات سات مراحل میں ہونا ہیں اور اب تک چار انتخابی مرحلے مکمل ہو چکے ہیں۔
اس خبر میں شامل بعض معلومات خبر رساں ادارے 'رائٹرز' سے لی گئی ہیں۔