نئی دہلی میں ایک اسرائیلی سفارت کار کی گاڑی میں گذشتہ دِنوں ہونے والے بم دھماکے کی تفتیش میں ایک نیا موڑ آگیا ہے۔
بھارتی میڈیا رپورٹوں کے مطابق اِس دھماکے میں سفارتی ذرائع ملوث ہوسکتے ہیں اور چونکہ سفارت کار اور سفارت خانوں کےدیگر حکام بھارت میں جانچ سے مستثنیٰ ہیں، اِس لیے ممکن ہے کہ دھماکہ خیز مادہ بھارت لانے کے لیے اُن کا استعمال کیا گیا ہو۔
تیر ہ فروری کو ایک خاتون اسرائیلی سفارت کار کی گاڑی میں ہونےوالے بم دھماکے کے بعد اسرائیل نے ایران کو موردِ الزام ٹھہرایا تھا۔دھماکے میں سفارت کار سمیت چار افراد زخمی ہوئے تھے۔
اِس سلسلے میں، دہلی پولیس نے تین ایرانی باشندوں ہوشنگ افسری ایرانی، سید علی مہدی صدر اور محمد رضا ابوالغثیمی کو دھماکے کا ذمہ دار قرار دیا ہے۔پولیس کے مطابق، افسر ایرانی نے ہی کار پر بم نصب کیا تھا۔
دہلی کے پولیس کمشنر بی کے گپتا نے دعویٰ کیا ہے کہ مذکورہ ایرانی باشندوں نے دہلی کے ایک فری لانس اردو صحافی محمد احمد کاظمی کی مدد سے اسرائیلی سفارت خانے سے متصل علاقے کا معائنہ کیا تھا اور سفارت کار کی آمد و رفت کے بارے میں معلومات حاصل کی تھیں۔
دہلی کی ایک عدالت نے ان تینوں کے خلاف غیر ضمانتی وارنٹ جاری کیے ہیں اور انٹرپول نے بھی اُن کے خلاف ریڈ وارنٹ جاری کیا ہے۔
دہلی پولیس نے دھماکے کی سازش کے الزام میں محمد احمد کاظمی کو سات مارچ کو گرفتار کیا تھا اور عدالت نے اُنھیں 20دِنوں کے لیے پولیس تحویل میں دے دیا تھا۔
کاظمی کی رہائی کے لیے دہلی سمیت مختلف شہروں میں بعض مسلم تنظیموں کی جانب سے احتجاجی مظاہرے جاری ہیں۔