سہیل انجم
بھارت نے اقوام متحدہ کے جنرل اسمبلی اجلاس میں پیش کی جانے والی اس قرار داد کے حق میں ووٹ دیا ہے جس میں یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے فیصلے کی مخالفت کی گئی اور اسے مسترد کیا گیا ہے۔
قابل ذکر ہے کہ امریکہ اور اسرائیل کے ساتھ بھارتی حکومت کی بڑھتی قربت کے باوجود نئی دہلی نے قرار داد کے حق میں ووٹ دیا۔ ادھر اسرائیل کے وزیر اعظم نیتن یاہو اگلے ماہ بھارت کے دورے پر آ رہے ہیں۔ ان سے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے دوستانہ مراسم ہیں۔ مودی نے جولائی میں جب اسرائیل کا دورہ کیا تھا تو انہوں نے فلسطین جانے سے گریز کیا تھا۔ حالانکہ بھارت کی یہ دیرینہ پالیسی رہی ہے کہ کوئی بھی راہنما جب اسرائیل جاتا تو وہ فلسطین بھی جاتا رہا ہے۔
خیال رہے کہ نئی دہلی میں سعودی عرب کے سفیر محمد سعود ال ساطی کی قیادت میں متعدد عرب سفیروں نے 11 دسمبر کو وزارت خارجہ کے دفتر جا کر وزیر مملکت برائے خارجہ ایم جے اکبر اور دیگر اہل کاروں سے ملاقات کی تھی اور امریکی صدر کے فیصلے کے خلاف بھارت کی جانب سے سخت بیان نہ دیے جانے پر اظہار تشویش کیا تھا۔
اس وقت حکومت کے اہل کاروں نے یہ کہہ کر ان کی تشویش دور کرنے کی کوشش کی تھی کہ بھارت کی پالیسیاں اس کے اصولوں اور مفادات پر مبنی ہیں اور یہ کہ وہ اس سلسلے میں کسی تیسرے فریق سے ہدایت نہیں لیتا۔
اس سے قبل بھی بھارت فلسطین کےحق میں ووٹ دیتا رہا ہے۔ تاہم اس نے جولائی 2015 میں جنیوا میں منعقد ہونے والے اقوام متحدہ انسانی حقوق کونسل کے اجلاس میں اسرائیل کے خلاف ووٹ نہیں دیا تھا بلکہ وہ ووٹنگ سے غیر حاضر رہا۔
بی جے پی کے متنازع ایم پی سبرامنیم سوامی نے بھارت کے فیصلے پر شديد رد عمل ظاہر کرتے ہوئے اسے ایک بڑی غلطی قرار دیا۔ وہ اسرائیل کے کٹر حامی سمجھے جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بھارت کا یہ قدم اس کے قومی مفادات کے خلاف ہے۔ کیونکہ” فلسطین نے کشمیر معاملے پر کبھی بھی بھارت کی حمایت نہیں کی جبکہ اسرائیل ہمیشہ بھارت کے ساتھ کھڑا رہا“۔
بھارت کے زیر انتظام کشمیر کی وزیر اعلی محبوبہ مفتی اور سابق وزیر اعلی عمر عبد اللہ نے بھارت کے فیصلے کا خیرمقدم کیا اور کہا کہ اس ووٹ سے فلسطین کی حمایت سے متعلق ہمارے موقف کو تقویت حاصل ہوئی ہے۔
جبکہ ٹویٹر پر بہت سے لوگوں نے اس فیصلے کی مخالفت اور سوامی کی باتوں کی تائید کی۔