بھارت نے بدھ کے روز ایک ہی مشن میں 20 سیٹلائٹ خلا میں روانہ کردیے، جِس کا مقصد تجارتی بنیاد پر سودمند عالمی سیٹلائٹ مارکیٹ میں قدم رکھنا ہے۔
سارے سیٹلائٹ ایک ہی راکیٹ میں رکھے گئے تھے، جس نے 26 منٹوں کے اندر اُنھیں مدار میں ڈال دیا۔ اِن میں سے 17 غیرملکی تجارتی سیٹلائٹ تھے، جن میں سے 13 امریکہ کے، دو کینیڈا جب کہ ایک ایک انڈونیشیا اور جرمنی کے ہیں۔
یہ راکیٹ جنوبی بھارت کی ریاست، آندھرا پردیش کے ایک جزیرے سے خلا میں روانہ کیا گیا۔
بھارت کی جانب سے مدار میں بھیجے گئے سیٹلائٹ کی یہ سب سے بڑی تعداد تھی، جب کہ سنہ 2014 میں روس پہلے ہی ایکساتھ 37 سیٹلائٹ بھیجنے کا ریکارڈ قائم کر چکا ہے۔
خلائی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس تجربے کے بعد کم لاگت کے بھارتی خلائی پروگرام کے تحت سیٹلائٹ روانہ کرنے کی دھاک جم جائے گی۔
نئی دہلی کے ’انسٹی ٹیوٹ فور ڈفنس اسٹڈیز اینڈ انالسیز‘ سے تعلق رکھنے والے، اجے لیلے نے بدھ کے روز کہا ہے کہ’’آج یہ ثابت ہوگیا ہے کہ امریکہ جیسے ترقی یافتہ ملکوں میں بھی جہاں سیٹلائٹ خلا میں بھیجنے کی سہولیات دستیاب ہیں اُن کی نگاہیں بھارت کی جانب لگی ہوئی ہیں، کیونکہ بھارت کم لاگت پر مؤثر کارکردگی کے ساتھ ساتھ اپنے اوپر انحصار کی اہلیت ثابت کر چکا ہے‘‘۔
گوگل بھی بھارتی گاہکوں میں سے ایک ہے، جس کا 110 کلوگرام کا سیٹلائٹ روانہ کیا جا چکا ہے، جو ’سب میٹر رزولوشن امیجز‘ اور ’ہائی ڈفینیش وڈیو‘ کی صلاحیت کا حامل ہے۔
ایسے میں جب انٹرنیٹ اور فون کمپنیاں، ایئرلائنز اور متعدد دیگر ادارے رابطے کے لیے ’بینڈوڈتھ‘ کا استعمال کرتے ہیں، سیٹلائٹس کو مدار میں بھیجنا اربوں ڈالر کا کاروبار ہے۔
لیلے کے بقول، ’’اِن دِنوں، یہ کچھ ہو رہا ہے کہ دنیا کے چھوٹے ممالک، یہاں تک کہ نجی ادارے بھی، اپنے سیٹلائٹ رکھنے کی تگ و دو کر رہے ہیں۔ وہ بڑے سیٹلائٹ نہیں رکھ سکتے۔ اس لیے وہ انتہائی چھوٹے ’نینو سیٹلائٹس‘ کی جانب نظریں جمائے ہوئے ہیں۔ اس وقت، بھارت اس قسم کی سہولت فراہم کرتا ہے‘‘۔
بھارت نے اب تک فروخت سے وابستہ بیرونی اداروں کے 74 سیٹلائٹ مدار میں بھیجے ہیں، جن میں زیادہ تر دو ٹن سے کم وزنی ’اسپیس کرافٹ‘ ہیں۔
خلائی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بھارت اپنی ٹیکنالوجی کے سلسلے میں نجی کمپنیوں کے ساتھ اشتراک کر سکتا ہے، تاکہ اس کے سائنس داں خلائی پروگرام کے تسخیری پہلوؤں پر دھیان مرکوز رکھ سکیں۔