بھارت کے خلائی تحقیقات کے ادارے (آئی ایس آر او) نے جمعے کو اطلاعات کے مطابق ایک ساتھ 31 سیٹلائٹ کو کامیابی کے ساتھ خلا میں روانہ کیا ہے۔ ان میں ملک کا 100 واں سیٹلائٹ' کارٹوسیٹ' بھی شامل ہے۔
آئی ایس آر او کے حکام نے بتایا ہے کہ 'کارٹو سیٹ' بنیادی طو پر طویل فاصلے سے تصاویر لینے کی صلاحیت کا حامل ہے اور اس مقصد کے لیے اس میں خاص نوعیت کے کیمرے بھی نصب کیے گئے ہیں۔
حکام کے مطابق کارٹو سیٹ کے علاوہ خلا میں مزید 30 سیٹلائٹ بھی روانہ کیے گئے ہیں جن میں سے تین بھارت کے جبکہ باقی 28 سیٹلائٹ چھ ملکوں کے ہیں جن میں کینیڈا، فن لینڈ، فرانس، جنوبی کوریا، برطانیہ اور امریکہ شامل ہیں۔
گزشتہ دو دہائیوں کے دوران بھارت سیٹلائٹ کو خلا میں بھیجنے کے لیے ایک سستا اور قابلِ عمل متبادل حل دینے والے ملک کے طور پر سامنے آیا ہے۔
بھارت کی طرف سے خلا میں کارٹو سیٹ سیٹلائٹ بھیجنے کے منصوبے پر پاکستان پہلے ہی تحفظات کا اظہار کر چکا ہے جسے اسلام آباد کے بقول سول اور فوجی دونوں مقاصد کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
پاکستان نے ان تحفظات کا اظہار بھارت کی طرف سے خلاف میں 100واں سیٹلائٹ فضا میں روانہ کرنے سے ایک دن پہلے کیا۔
پاکستان کے دفترِ خارجہ کے ترجمان محمد فیصل نے جمعرات کو معمول کی ہفتہ وار نیوز بریفنگ کے دوران بھارت کی طرف سے کارٹو سیٹ کو خلا میں بھیجنے کے منصوبے سے متعلق پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ دوہرے مقاصد کے حامل سیٹلائٹ عدم استحکام کا باعث بننے والی فوجی صلاحیتوں میں اضافے کا موجب بن سکتے ہیں۔
دفترِ خارجہ کے ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ تمام ریاستیں خلائی ٹیکنالوجی کے پرامن استعمال کی کوشش کرنے کا جائز حق رکھتی ہیں۔
تاہم ان کے بقول ایسی ٹیکنالوجی کی دوہری نوعیت کے پیشِ نظر ایسی ٹیکنالوجی کو عدم استحکام کا سبب بننے والی فوجی صلاحیت میں اضافے کے لیے استعمال نہ کیا جائے۔ اس کی وجہ سے علاقائی اسٹریٹجک استحکام پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔
اگرچہ بھارت کے طرف سے پاکستان کے دفترِ خارجہ کے بیان پر کوئی ردِ عمل سامنے نہیں آیا ہے لیکن بھارتی حکا کا موقف ہے کہ کارٹو سیٹ کو دیہاتی اور شہری علاقوں، ساحلی علاقوں اور پانی کی تقسیم کے معاملات کا جائزہ لینے کے لیے استعمال کیا جاسکے گا۔