رسائی کے لنکس

چیمپئنز ٹرافی: 'بھارت اور پاکستان کو سیاسی سطح پر روابط بڑھانا ہوں گے'


فائل فوٹو
فائل فوٹو

چیمپئنز ٹرافی کھیلنے کے لیے بھارتی ٹیم کو پاکستان کا دورہ نہیں کرنا چاہیے: سابق سفارت کار

بھارت کو اس پالیسی پر قائم رہنا چاہیے کہ دہشت گردی اور بات چیت ایک ساتھ نہیں چل سکتے: وویک کاٹجو

ایس جے شنکر کے دورے کا موازنہ کرکٹ ٹیم کے دورے سے نہیں کیا جانا چاہیے: وویک شکلا

وزیرِ خارجہ ایس جے شنکر پاکستان جا سکتے ہیں تو بھارتی ٹیم کیوں نہیں جا سکتی: اسپورٹس جرنلسٹ

جس ملک میں ٹورنامنٹ ہو میچ اسی ملک میں ہونا چاہیے: سید پرویز قیصر

نئی دہلی — بھارتی کرکٹ بورڈ (بی سی سی آئی) کی جانب سے چیمپئنز ٹرافی کے لیے ٹیم پاکستان نہ بھیجنے کی اطلاعات کے بعد مقامی میڈیا میں معاملہ موضوعِ بحث ہے۔

آئندہ برس فروری میں پاکستان کی میزبانی میں چیمپئنز ٹرافی کا انعقاد ہونا ہے۔ لیکن اس سے قبل بی سی سی آئی نے کرکٹ کی عالمی تنظیم آئی سی سی کو آگاہ کر دیا ہے کہ وہ ٹیم پاکستان نہیں بھیجے گا۔

البتہ بھارتی حکومت یا بی سی سی آئی کے کسی عہدیدار نے کرکٹ ٹیم پاکستان نہ بھیجنے کا باضابطہ کوئی بیان جاری نہیں کیا ہے۔

لیکن مبصرین کا کہنا ہے کہ پاکستان سے روابط نہ رکھنا وزیرِ اعظم نریندر مودی کی حکومتی پالیسی ہے اور مودی سرکار کا مؤقف رہا ہے کہ جب تک دہشت گردی جاری ہے پاکستان کے ساتھ کوئی معاملہ نہیں کیا جا سکتا۔

اس سلسلے میں تجزیہ کاروں کی ملی جلی آراء ہیں۔ بعض مبصرین کا خیال ہے کہ جب تک دونوں ملک سیاسی سطح پر روابط کا آغاز نہیں کرتے، اس قسم کے تنازعات پیدا ہوتے رہیں گے۔

پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) نے آئی سی سی کے نام ایک خط میں کہا ہے کہ وہ میچ کھیلنے کے لیے بھارتی ٹیم کے پاکستان کا دورہ نہ کرنے کی تحریری تصدیق کرے اور اس کی وجوہات بھی بتائے۔

آئی سی سی نے جمعے کو پاکستان کو بھارت کے فیصلے کے بارے میں بتایا تھا۔ لیکن اب پی سی بی چاہتا ہے کہ وہ تحریری طور پر اس کی اطلاع دے۔

پی سی بی کے ایک عہدے دار نے کھیلوں کی سائٹ 'کرک انفو' کو بتایا ہے کہ پاکستان کے اس مؤقف میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے کہ پورا ٹورنامنٹ پاکستان میں ہی کھیلا جائے اور کسی قسم کا ہائبرڈ ماڈل زیرِ غور نہیں ہے۔

واضح رہے کہ چیمپئنز ٹرافی کے میچز 19 فروری سے نو مارچ کے درمیان لاہور، کراچی اور راولپنڈی میں کھیلے جائیں گے۔

بھارت نے ایونٹ میں شرکت کے لیے 'ہائبرڈ ماڈل' کی تجویز دی ہے جس کے تحت وہ اپنے میچز متحدہ عرب امارات میں کھیلنے کا خواہش مند ہے۔ تاہم چیئرمین پی سی بی محسن نقوی نے ہائبرڈ ماڈل کی تجویز مسترد کر دی ہے۔

بھارت نے آخری بار دو طرفہ میچز کے لیے 2006 کے اوائل میں پاکستان کا دورہ کیا تھا۔ دونوں ملکوں نے دسمبر 2012 اور جنوری 2013 میں دوطرفہ سیریز کھیلی تھی لیکن اس کے لیے پاکستان ٹیم بھارت آئی تھی۔

بھارتی کرکٹ ٹیم کو پاکستان نہ بھیجنے سے متعلق بی سی سی آئی کے حالیہ فیصلے پر نئی دہلی میں ملاجلا ردِ عمل ظاہر کیا جا رہا ہے۔ جہاں بعض تجزیہ کار اور سابق سفارت کار حکومت کے فیصلے سے متفق ہیں۔ وہیں بعض صحافی اسے غلط مانتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ بھارتی ٹیم کو پاکستان کا دورہ کرنا چاہیے۔

سابق سفارت کار وویک کاٹجو نے حال ہی میں انگریزی اخبار ’فرسٹ پوسٹ‘ کے لیے اپنے مضمون میں لکھا تھا کہ چیمپئنز ٹرافی کھیلنے کے لیے بھارتی ٹیم کو پاکستان کا دورہ نہیں کرنا چاہیے۔

ان کے مطابق بھارت میں دہشت گردی کے واقعات جاری رہتے ہوئے پاکستان جانے کا فیصلہ کرنا مشکل ہے۔ بھارت کو اپنی اس پالیسی پر قائم رہنا چاہیے کہ دہشت گردی اور بات چیت ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔

بھارت کے وزیرِ خارجہ ایس جے شنکر نے اکتوبر میں اسلام آباد میں ہونے والے شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے سربراہی اجلاس میں شرکت کی تھی۔ جے شنکر کی پاکستان آمد کے بعد امید بندھی تھی کہ دونوں ملکوں کے تعلقات پر پڑی برف پگھل سکتی ہے اور کشیدگی میں کمی آسکتی ہے۔

سینئر تجزیہ کار وویک شکلا نے بھارت کے فیصلے کی حمایت کی ہے۔ وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ ایس جے شنکر کے دورے کا موازنہ کرکٹ ٹیم کے دورے سے نہیں کیا جانا چاہیے۔

انہوں نے بھی وویک کاٹجو کے مانند بھارتی حکومت کے اس مؤقف کی تائید کی کہ جب تک دہشت گردی کے واقعات جاری ہیں پاکستان کے ساتھ کوئی معاملہ نہیں ہونا چاہیے۔

ایک سینئر اسپورٹس رائٹر سید پرویز قیصر نے بی سی سی آئی کے فیصلے پر تنقید کی ہے اور کہا کہ یہ بھارتی کرکٹ بورڈ کا نہیں بلکہ مودی حکومت کا فیصلہ ہے۔

گزشتہ 20 برس میں آئی سی سی کے تمام ٹورنامنٹز کو کور کرنے والے سید پرویز قیصر نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ پہلے ایسا کبھی نہیں ہوا کہ کسی ٹیم نے کرکٹ کونسل کے کسی ٹورنامنٹ کا بائیکاٹ کیا ہو۔

بعض میڈیا رپورٹس کے مطابق آئی سی سی نے پی سی بی سے کہا ہے کہ وہ ہائبرڈ ماڈل کے لیے تیار ہو جائے۔ اس نے پی سی بی کو یقین دلایا ہے کہ اس صورت میں اسے میزبانی کی مکمل فیس اور تمام میچز ملیں گے۔

پاکستان کے انگریزی اخبار ’ڈان‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق اگر پاکستان کو ٹورنامنٹ کی میزبانی کی مکمل فیس نہیں ملتی تو وہ اگلے سال کی آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی سے خود کو الگ کر سکتا ہے۔

رپورٹ کے مطابق حکومت پی سی بی سے کہہ سکتی ہے کہ جب تک بھارت اور پاکستان کے درمیان ایشوز حل نہیں ہو جاتے۔ وہ کسی بھی آئی سی سی یا ایشین کرکٹ کونسل ٹورنامنٹ میں بھارت کے خلاف کھیلنے سے انکار کر دے۔

دونوں پڑوسی ملکوں کے درمیان سیاسی کشیدگی کی وجہ سے بی سی سی آئی پاکستان سے روابطہ نہ رکھنے کی حکومتی پالیسی کے ساتھ برسوں سے کھڑا ہے۔

سینئر اسپورٹس رائٹر سید پرویز قیصر کہتے ہیں جب وزیرِ خارجہ ایس جے شنکر پاکستان جا سکتے ہیں تو بھارتی ٹیم کیوں نہیں جا سکتی۔

انہوں نے سیکیورٹی خدشات کے حوالے سے کہا کہ پاکستان نے بھارت کو سیکیورٹی کی یقین دہانی کرائی ہے اور کہا ہے کہ بھارت اپنا میچ لاہور میں کھیل لے۔ اس کے باوجود بھارت کا نہ جانا افسوس ناک ہے۔

ان کے بقول بھارت کا یہ فیصلہ کرکٹ شائقین کے ساتھ بہت بڑا دھوکہ ہے۔ اب تک دونوں ملکوں کے درمیان جتنے بھی میچز ہوئے ہیں ان میں شائقین کی تعداد دیگر میچوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ تھی۔

سید پرویز قیصر نے ہائبرڈ ماڈل کی مخالفت کی اور کہا کہ جس ملک میں ٹورنامنٹ ہو میچ اسی ملک میں ہونا چاہیے۔ صرف ایک ٹیم کے لیے دوسرے ملک میں میچ لے جانا مناسب نہیں ہے۔

ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ پاکستان نے ٹورنامنٹ کے لیے اتنی تیاری کی ہے۔ اب اگر دوسرے ملک میں میچ لے جایا جائے تو اس کو اضافی خرچ کرنا پڑے گا اور الگ سے انتظامات کرنا ہوں گے۔

پرویز قیصر نے کہا کہ ماضی میں حکومتیں کرکٹ ڈپلومیسی کا سہارا لے کر بھی باہمی تعلقات کو پٹری پر لانے کی کوشش کرتی رہی ہیں۔ موجودہ حکومت کو بھی وہی پالیسی اپنانی چاہیے۔

ان کے بقول جب تک سیاسی سطح پر روابط شروع نہیں کیے جائیں گے اس وقت تک ایسے تنازعات پیدا ہوتے رہیں گے۔

بھارت کے اخبار ’دی ہندو‘ نے اپنے اداریے میں دورہ نہ کرنے کی سیاسی وجوہات کی طرف اشارہ کیا ہے اور کہا ہے کہ 2008 میں ممبئی پر دہشت گرد حملے کے بعد سے بھارت نے پاکستان کا دورہ نہیں کیا ہے۔

اس کے مطابق سابق کرکٹرز سمیت متعدد لوگوں کا خیال ہے کہ واہگہ سرحد سے پاکستان جانے سے گریز کرنا چاہیے۔

اس کا یہ بھی کہنا ہے کہ پاکستان نے 2023 میں احمد آباد میں آئی سی سی ورلڈ کپ میچ میں اس لیے حصہ لیا تھا تاکہ بھارت بھی اسی طرح جواب دے۔ لیکن نئی دہلی کا مؤقف مختلف ہے۔

اخبار نے 2009 میں لاہور میں سری لنکا کی ٹیم پر حملے کا حوالے دیتے ہوئے کہا کہ اسی وقت سے پاکستان میں سیکیورٹی کا ایشو زیرِ بحث ہے۔ لیکن آخر میں اخبار اپنے اداریے میں یہ بھی کہتا ہے کہ کئی ملکوں کی کرکٹ ٹیمیں پاکستان کا دورہ کر چکی ہیں۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG