بھارت اور پاکستان ایک دوسرے کے پڑوسی ہیں، دونوں ممالک کا کلچر اور رہن سہن بھی تقریباً ایک ہی جیسا ہے مگر اس کے باوجود دونوں ممالک کے درمیان تجارت کے لئے وہ خوش گوار ماحول اب تک پیدا نہیں ہوسکا ہے جو وقت کا تقاضہ اور ضرورت ہے۔ دونوں ممالک آج بھی واہگہ بارڈر کے ذریعے نہایت محدود پیمانے پر تجارت کرتے ہوئے بھی انتہائی سیکورٹی کو ضروری سمجھتے ہیں۔ دونوں ممالک کو یہ دھڑکا لگا رہتا ہے کہ کہیں کچھ ان دیکھا نہ ہوجائے ۔
ٹریڈ ڈویویلپمنٹ اتھارٹی آف پاکستان ( ٹی ڈی اے پی ) کے چیف ایگزیکٹو آفیسر طارق اقبال پوری کے مطابق اگر سیکورٹی کا مسئلہ حل ہوجائے تو دونوں ممالک کے درمیان انتہائی اہم تجارتی تعلقات قائم ہوسکتے ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر واہگہ بارڈر سے تجارت کے لئے درکار سرٹیفکیشن کا مسئلہ حل ہو جائے تو دو ارب ڈالر کی صرف سیمنٹ کی ایکسپورٹ ہو سکتی ہے ، علاوہ ازیں بھارت کو گندم اور چاول کی برآمد کے عوض وہاں سے تیل کی درآمد کی جاسکتی ہے ۔ اس سلسلے میں دیگر ماہرین کا کہنا ہے کہ بھارت سے سڑک کے راستے 108 اشیاء کی نہایت سود مند تجارت ہوسکتی ہے۔ تقسیم ہند سے قبل سامان کی نقل و حمل واہگہ، اٹاری بارڈر سے ہی کی جاتی تھی۔ دونوں ممالک 1955 تک اوپن ٹریڈ کرتے رہے تاہم اس کے بعد یہ سلسلہ منقطع ہو گیا ۔
اس وقت دونوں ممالک کے دوران صرف دو ارب ڈالر مالیت کی تجارت ہوتی ہے جس میں ایک ارب 55 کروڑ ڈالر مالیت کی پاکستان کی درآمدات ہیں جبکہ 45 کروڑ ڈالر مالیت کی بھارت کو برآمدات ہیں ۔
ٹریڈ ڈویویلپمنٹ اتھارٹی آف پاکستان ( ٹی ڈی اے پی ) کے چیف ایگزیکٹو آفیسر طارق اقبال پوری نے بدھ کو وائس آف امریکہ کے نمائندے سے خصوصی بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ بھارت کو پسندیدہ قوم کا درجہ قرار دیئے جانے پر بزنس کمیونٹی مطمئن ہے ۔ وفاقی کابینہ کی جانب سے بھارت کو پسندیدہ ملک قرار دینے کے اقدام کو سراہتے ہو ئے انہوں نے کہا ہے کہ جہاں پڑوسی کام آ سکتا ہے کوئی اور نہیں ، اس سے نہ صرف دونوں ممالک کے درمیان تجارت کو فروغ ملے گا بلکہ عوام میں پائے جانے والے فاصلے بھی سمٹ جائیں گے۔
بدھ کو اسلام آباد میں وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کی زیر صدارت ہونے والے وفاقی کابینہ کے اجلاس میں بھارت کو پسندیدہ ترین ملک قرار دینے کے حوالے سے متعلق طارق پوری کا کہنا تھا کہ حکومت نے انتہائی دانشمندانہ فیصلہ کیا ہے جس کی ہم بھر پور حمایت کرتے ہیں ۔اس سے دو طرفہ تجارت کو فروغ ملے گا اور پاکستان کی برآمدات میں اضافہ ہو گا ۔
طارق پوری نے کہا کہ حکومت کے اس عمل سے ملک میں جو اشیائے خردونوش کا وقتی یا موسمی بحران پیدا ہوتا ہے اس پر بھی بڑی حد تک قابو پانے میں مدد ملے گی ۔ انہوں نے مثال دی کہ اگر کھانا پکاتے وقت پیاز کم ہو جائے تو وہ پڑوسیوں سے فوراً مل سکتی ہے جبکہ دور کے رشتہ داروں اور دوستوں کے پاس جاتے جاتے وقت ہاتھ سے نکل جاتا ہے ، اسی طرح شارٹ نوٹس پربھارت سے چیزیں درآمد اور برآمد کی جا سکتی ہیں ۔
انہوں نے مزید بتایا کہ دو طرفہ تجارت میں پاکستان ایگری کلچر اور انڈسٹری ، کیمیکلز ، اسپیئرپارٹس ، مشینریز ، ٹیکسٹائل اور فائبرز کی صنتعوں کو فائدہ ہو گا۔ خام مال کی دستیابی میں کافی حد تک مدد ملے گی ۔
بعض سیاسی و مذہبی جماعتوں کی جانب سے بھارت کو پسندیدہ قوم کا درجہ قرار دیئے جانے پر تحفظات کے حوالے سے پر ان کا کہنا تھا کہ ہر شخص اپنی سوچ اور حالات کے مطابق خیالات رکھتا ہے اور وہ اس میں پوری طرح آزاد بھی ہے لیکن جہاں تک بزنس کمیونٹی کا تعلق ہے تو وہ اس اقدام سے مطمئن ہے ۔