بھارت نے ایک بار پھر افغانستان میں اپنی سفارتی موجودگی کے لیے ماہرین کی ایک ٹیم کابل بھیج دی ہے۔ اس ٹیم نے گزشتہ برس بند ہونے والا بھارت کا سفارت خانہ ایک بار پھر فعال کر دیا ہے۔
اگست 2021 میں کابل پر طالبان کے قبضے کے دوران نئی دہلی نے افغان دارالحکومت کابل میں سفارت خانے سمیت ہرات، قندھار، جلال آباد اور مزار شریف میں اپنے قونصل خانے بند کر دیے تھے اور وہاں سے عملہ نکال لیا تھا۔
بھارتی اخبار ’ہندوستان ٹائمز‘ کے مطابق حالیہ ہفتوں میں افغانستان میں برسرِ اقتدار طالبان اور نئی دہلی کے درمیان پسِ پردہ کئی ملاقاتیں اور اجلاس ہوئے ہیں، جس کے بعد بھارتی حکام کے کابل واپس جانے کی راہ ہموار ہوئی ہے۔
بھارت کی ماہرین پر مبنی ٹیم جمعرات کو کابل پہنچی ہے۔ اس حوالے سے بھارت کی وزارتِ خارجہ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ یہ ٹیم سفارت خانے بھیجی گئی ہے جس کا کام انسانی بنیادوں پر امداد کی فراہمی کی بھر پور نگرانی کرنا اور اس حوالے سے کام کرنے والے اداروں کے درمیان ربط قائم کرنے میں کردار کی ادائیگی ہوگا۔ یہ تمام اقدامات بھارت اور افغان عوام میں رابطوں کا تسلسل برقرار رکھنے کے لیے کیے جا رہے ہیں۔
بھارتی ذرائع ابلاغ کی رپورٹس کے مطابق نئی دہلی اپنے اس اقدام کو افغان عوام سے تاریخی تعلقات اور رابطوں کا تسلسل ظاہر کر رہا ہے۔تاہم اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ بھارت افغانستان میں طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنے جا رہا ہے۔
خبر رساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ کے مطابق بھارت کے ماہرین کی ٹیم ایئر فورس کے طیارے میں کابل پہنچی تھی۔ اس طیارےمیں افغانستان میں آنے والے حالیہ زلزلے سے متاثرہ افراد کے لیے امداد بھی تھی۔
اس زلزلے میں لگ بھگ ایک ہزار افراد ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہوئے ہیں، جب کہ سرحدی علاقوں میں مکان گرنے سے بڑی تعداد میں شہری بے گھر بھی ہوئے ہیں۔
بھارت کی جانب سے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر کابل پہنچنے والی امداد کسی بھی ملک کی زلزلے کے بعد افغانستان کو پہلی براہِ راست امداد قرار دی جا رہی ہے۔
’اے پی‘ کے مطابق نئی دہلی سے فوجی طیارے کے ذریعے 13 ٹن ادویات، پانچ لاکھ کرونا ویکسین اور سردی سے بچنے کے لیے کپڑوں سمیت دیگر اشیا افغانستان بھیجی گئی ہیں۔اس کے علاوہ گندم بھی بھیجی گئی ہے۔
نئی دہلی نے کابل بھیجی گئی ٹیم میں شامل ٹیکنیکل ماہرین کے نام جاری نہیں کیے اور نہ ہی یہ وضاحت کی ہے کہ بھارت کی ٹیم میں کتنے افراد شامل ہیں۔
رپورٹس کے مطابق نئی دہلی نے ٹیم بھیجنے کا فیصلہ اس لیے کیا ہے کیوں کہ خطے کے دیگر ممالک چین، روس، ایران اور پاکستان کابل میں پہلے سے موجود ہیں اور یہ رائے موجود ہے کہ نئی دہلی افغانستان میں اپنی موجود گی برقرار نہیں رکھ سکتا۔
یہ اطلاعات بھی سامنے آ رہی ہیں کہ بھارت کے ماہرین کی ٹیم کو افغانستان کی فضائی کمپنی کے ذریعے گزشتہ ہفتے کابل جانا تھا، مگر کابل میں گوردوارے پر حملے کے سبب یہ روانگی مؤخر کر دی گئی تھی۔ اس حملے کی ذمہ داری شدت پسند تنظیم داعش نے قبول کی تھی۔
واضح رہے کہ تین ہفتے قبل بھارت کی وزارتِ خارجہ کے افغانستان کے لیے مقرر کردہ نمائندے جے پی سنگھ کی قیادت میں وفد نے طالبان کے وزیرِ خارجہ امیر خان متقی سمیت دیگر رہنماؤں سے ملاقاتیں کی تھیں۔ رپورٹس کے مطابق ان ملاقاتوں میں طالبان نے بھارتی حکام کو سفارتی عملہ کابل بھیجنے پر سیکیورٹی فراہم کرنے کی یقین دہانی کرائی تھی۔
طالبان کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان عبد القہار بلخی نے بھی دو جون کو ایک بیان جاری کیا تھا کہ امیر خان متقی نے بھارت پر کابل میں سفارتی موجودگی پر زور دیا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ قونصلر سروس شروع کرنے کی بھی گزارش کی گئی تھی۔
بھارت سے سامنے آنے والی رپورٹس کے مطابق طالبان نے یہ اشارے بھی دیے ہیں کہ بھارت کی افغانستان میں سفارتی موجودگی کو خوش آمدید کہا جائے گا۔