رسائی کے لنکس

جنرل باجوہ کے خلاف ٹوئٹر ٹرینڈز: ’ فوج پر تنقید ہو رہی ہے لیکن وہ جواب نہیں دے گی‘


فائل فوٹو
فائل فوٹو

پاکستان میں رواں برس نومبر میں فوج کے سربراہ کی تبدیلی ہونی ہے۔ نئے آرمی چیف کے تقرر میں ابھی کئی ماہ باقی ہیں لیکن ایک بار پھر فوج کے سربراہ کے تقرر کے حوالےسے بحث اور تنازعات سامنے آ رہے ہیں۔

پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین اور سابق وزیرِ اعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ انہوں نے بحیثیت وزیرِ اعظم آئندہ آرمی چیف تعینات کرنے کے بارے میں سوچا بھی نہیں تھا۔ ان کا خیال تھا کہ جب وقت آئے گا تو جو فوجی افسر بھی میرٹ پر ہوگا، اسے آرمی چیف تعینات کر دیا جائے گا،تاہم اس وقت کی حزبِ اختلاف کی جماعتوں کو خوف تھا کہ لیفٹننٹ جنرل فیض حمید کو آرمی چیف لگایا جائے گا۔

سابق وزیرِ اعظم کے اس بیان پر بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ آرمی چیف کا تقرر ایک ایسا موضوع ہے جس کو عمران خان سمیت کوئی بھی سیاست دان نظر انداز نہیں کر سکتا۔

پاکستان پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن) اور دیگر سیاسی جماعتوں کی موجود اتحادی حکومت کی وفاقی کابینہ میں وفاقی وزیر خرم دستگیر نے نجی ٹیلی ویژن چینل ’نیو نیوز‘ کے ایک پروگرام میں کہا تھا کہ پی ٹی آئی حکومت کا منصوبہ تھا کہ مسلم لیگ (ن) کی قیادت کو نیب کیسز میں پھنسا کر نئی اہم تعیناتی کرکے صدارتی نظام لایا جائے اور آئندہ 15 سے 20 برس تک حکومت کی جائے۔

اس حوالے سے سینئر صحافی حامد میرنے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان غلط بیانی کر رہے ہیں۔ سابق وزیرِ اعظم اور ان کے ساتھیوں کا باقاعدہ منصوبہ تھا، جس کے تحت انہوں نے صدارتی نظام لا کر آئندہ 15 سے 20 برس تک حکومت کرنے کا سوچ رکھا تھا۔

حامد میر کے مطابق پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) نے اس منصوبے کو ناکام بنانے میں سب سے اہم کردار ادا کیا۔

دوسری جانب فوج کے سابق بریگیڈیئر حارث نواز کہتے ہیں کہ فوج کو سیاست میں گھسیٹا جا رہا ہے لیکن فوج اب سیاست سے دور ہوچکی ہے۔

ایک طرف آرمی چیف کے تقرر اور عمران خان کے مبینہ منصوبے کی بازگشت ہے تو دوسری جانب سوشل میڈیا پر فوج اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ پر شدید تنقید کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ قمر جاوید باجوہ کے خلاف متعدد سوشل میڈیا ٹرینڈز ٹوئٹر پر گزشتہ کئی دن سے ٹاپ پر ہیں۔

سینئر صحافی حامد میر کہتے ہیں کہ سابق وزیرِ اعظم عمران خان غلط بیانی کر رہے ہیں کہ انہوں نے رواں برس نومبر میں لیفٹننٹ جنرل فیض حمید یا کسی اور کو آرمی چیف لگانے کا فیصلہ نہیں کیا تھا۔ حامد میر کے بقول حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے لیفٹننٹ جنرل فیض حمید کو 15 اپریل سے قبل آرمی چیف بنانے کا فیصلہ کرلیا تھا۔

واضح رہے کہ عمران خان کے خلاف 10 اپریل کو قومی اسمبلی میں اپوزیشن کی پیش کردہ تحریکِ عدم اعتماد کامیاب ہوئی تھی، جس کے بعد وہ اس منصب پر برقرار نہیں رہے تھے اور ایوان نے ان کی جگہ سابق اپوزیشن لیڈر اور مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف کو وزیرِ اعظم منتخب کر لیا تھا۔

تحریکِ انصاف کی حکومت کا ذکر کرتے ہوئے حامد میر کہتے ہیں کہ وزرا حزبِ اختلاف سے رابطے کر رہے تھے کہ تحریکِ عدم اعتماد کا کوئی فائدہ نہیں کیوں کہ تمام معاملات حل ہونے جا رہے ہیں۔

انہوں نے اپنے ایک کالم کا حوالہ دیتے ہوئےکہا کہ انہوں نے جنوری 2022 میں لکھا تھا کہ اگر خفیہ ادارہ آئی ایس آئی نیوٹرل ہو گیا تو تحریکِ عدم اعتماد کامیاب ہو جائے گی۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ تحریکِ انصاف نے فیصلہ کر لیا تھا کہ مسلم لیگ (ن) کو ملک کی سیاست سے کنارے پر لگا دیا جائے گا۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے پیپلز پارٹی سے رابطہ کر کے کہا کہ پیپلز پارٹی سندھ میں تحریکِ انصاف کے لیے گنجائش پیدا کرے جس کے جواب میں تحریکِ انصاف وفاق میں پیپلز پارٹی کو ایڈجسٹ کرے گی۔ نواز شریف تو باہر نکل گئے ہیں، اب شہباز شریف کو باہر کرتے ہیں۔

حامد میر نے بتایا کہ پیپلز پارٹی کے سندھ کے ایک سینیٹر تحریکِ انصاف سے مذاکرات کر رہے تھے۔ اس سینیٹر نے محسوس کر لیا تھا کہ یہ لمبا چوڑا منصوبہ ہے۔ اصل میں یہ مذاکرات سویلین خفیہ ادارے انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) کے کچھ افسران کر رہے تھے ۔ تحریکِ انصاف کی جانب سے ان مذاکرات میں کچھ لوگ وہ بھی تھے جو پیپلز پارٹی چھوڑ کر آئے تھے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ تمام صورتِ حال واضح ہوئی تو معلوم ہوا کہ اپریل 2022 میں نئے آرمی چیف کا تقرر کیا جانا تھا، اس کے بعد 2022 کے اختتام تک انتخابات کرانے تھے، جس میں تحریکِ انصاف کو دو تہائی اکثریت دلائی جانی تھی۔ پیپلز پارٹی کو ساتھ ہونے کا کہا تو گیا تھا لیکن حقیقت میں انہیں صرف استعمال کیا جانا تھا۔

اس مبینہ منصوبے کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ دو تہائی اکثریت کے حصول کے بعد تحریکِ انصاف نے آئین میں ترمیم کرکے صدارتی نظام لانا تھا اور 18ویں ترمیم ختم کی جانی تھی۔ اس کے علاوہ کالا باغ ڈیم بھی بنایا جانا تھا۔

حامد میر کے مطابق پیپلز پارٹی کے پاس جب تمام معلومات آگئیں، تو انہوں نے فیصلہ کیا کہ مسلم لیگ (ن) کے ساتھ لڑائی کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ لہٰذا انہوں نے نواز شریف سے بات کی۔ اس کے بعد سابق وزیرِ اعظم نواز شریف اور سابق صدر آصف علی زرداری کے درمیان براہِ راست بات چیت میں حتمی فیصلے ہوئے۔

انہوں نے کہا کہ رواں برس اپریل میں اگر لیفٹننٹ جنرل فیض حمید آرمی چیف بن جاتے، تو اس کے بعد مسلم لیگ (ن) کی سیاست ختم ہو جاتی۔ اسی وجہ سے عمران خان نے کوشش کی تھی کہ فیض حمید آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل(ڈی جی) کے عہدےبرقرار رہیں۔

حامد میر کے بقول جب یہ بات آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ تک پہنچی، تو انہوں نے ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹننٹ جنرل فیض حمید کے تبادلے کے معاملے پر فوج کے اندر فیصلہ کیا کہ فوج کو نیوٹرل رہنا ہے۔ فوج کے اس فیصلے کا حزبِ اختلاف نے فائدہ اٹھایا۔

سینئر صحافی نے تحریکِ انصاف کے حوالے سے مزید بتایا کہ جب تحریکِ عدم اعتماد آ گئی تو آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے رابطہ کیا گیا لیکن اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔

فوج کے سربراہ کے حوالے سے سوشل میڈیا پر چلنے والے ٹرینڈز پر حامد میر کا کہنا تھا کہ تحریکِ انصاف کے بعض حامی اب سوشل میڈیا پر آرمی چیف پر تنقید کر رہے ہیں، کیوں کہ وہ سمجھتے ہیں کہ ان کے آئندہ 20 سال حکومت کرنے کے منصوبے کو جنرل قمر جاوید باجوہ نے ختم کیا ہے۔

انہوں نے اپنا خیال ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ اس کی ذمہ داری ان لوگوں پر ہے جنہوں نے یہ منصوبہ پیپلز پارٹی کو بتایا اور پھر پیپلز پارٹی نے یہ منصوبہ نواز شریف تک پہنچایا۔ اس کے بعد ان سب نے مل کر سابق وزیرِ اعظم عمران خان کو ہی باہر کر دیا۔

سوشل میڈیا ٹرینڈز کے حوالے سے حامد میر نے کہا کہ یہ بات واقعی حیرت انگیز ہے کہ جنرل قمر جاوید باجوہ کی ٹرولنگ ہو رہی ہے، مگر اس پر کوئی کارروائی نہیں کی جا رہی۔

ان کے بقول وہ سمجھتے ہیں کہ عمران خان، فواد چوہدری اور اسد عمر کا تعلق پنجاب سے ہے۔ اگر اختر مینگل، آصف علی زرداری یا علی وزیر ایسا کرتے تو ان کے خلاف کارروائی کی جاتی۔ اب صورتِ حال یہ ہے کہ عمران خان استعفیٰ دے کر گھر بیٹھ چکے ہیں۔ اس کے باوجود قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں تحریکِ انصاف کی حکومت کے وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی اور وزیرِ داخلہ شیخ رشید کو شرکت کی دعوت دی جا رہی ہے۔

حامد میر کے مطابق بلوچستان کے ایک وزیر نے ان سے کہا کہ اس وقت سوشل میڈیا پر جو ٹرولنگ فوج کی ہو رہی ہے، اگر بلوچستان کی کوئی جماعت ایسا کرتی تو اب تک اس پارٹی کو عبرت کا نشان بنا دیا گیا ہوتا، مگر عمران خان، اسد عمر اور فواد چوہدری کو کچھ نہیں کہا جاتا۔

سابق وزیرِ اطلاعات فواد چوہدری کے اس بیان پر کہ سیاست میں عدلیہ اور فوج باقاعدہ پلیئر ہیں، حامد میر نے کہا کہ پرویز مشرف کے ترجمان یہ بات کر رہے ہیں کہ پاکستان کی فوج باقاعدہ پلیئر ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ فواد چوہدری چاہتے ہیں کہ پاکستان کی فوج سیاست میں رہے۔ فوج کہہ رہی ہے کہ وہ غیر جانب دار رہنا چاہتی ہے۔

’تمام فوجی افسران صرف چیف کو فالو کرتے ہیں‘

فوج کے سابق بریگیڈیئر حارث نواز نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آرمی چیف کے تقرر کے لیے موجودہ سربراہ کی ریٹائرمنٹ سے ایک ماہ قبل نام بھجوائے جاتے ہیں، جس پر وزیرِ اعظم فیصلہ کرتے ہیں لیکن دنیا میں کسی جگہ ایسا نہیں ہوتا کہ اس تقرر کو متنازع بنا دیا جائے۔

نیا آرمی چیف تعینات کیے جانے کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ اس عمل کو مشکوک بنانے سے فوج کے جوانوں میں بد دلی پھیلتی ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ کوئی فوجی افسر کیسے کئی برس تک آرمی چیف رہ سکتا ہے؟ ہر پانچ برس بعد انتخابات ہوتے ہیں اور نئی حکومت آتی ہے۔انہوں نے کہا کہ ہر جماعت کی اپنی پسند اور ناپسند ہوتی ہے لیکن اس سےفرق نہیں پڑتا۔ آرمی چیف کا عہدہ ایک ڈسپلنڈ عہدہ ہے، جس میں تمام افسران صرف چیف کو فالو کرتے ہیں۔

حارث نواز کا کہنا تھا کہ پاکستان کی فوج نظم وضبط کی انتہائی پابند ہے اور ان کے پاس اس وقت بہت زیادہ سیکیورٹی سے متعلق امور ہیں، لہٰذا انہیں ان کو سیاسی معاملات سے دور رکھا جائے۔

جنرل قمر جاوید باجوہ کی سوشل میڈیا پر ٹرولنگ کے بارے میں انہوں نے کہا کہ یہ نالائقی حکومت کی ہے۔ ففتھ جنریشن وار فئیر یہی ہے کہ عوام اور فوج میں دوریاں پیدا کی جائیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ جن جن ممالک میں فوج کمزور ہوئی، وہاں بیرونی دشمنوں کے عزائم پورے ہوئے۔ اس وقت یہی کوشش پاکستان کی فوج کے خلاف ہو رہی ہے، جس کے لیے ضروری ہے کہ فوج پر تنقید کرنے والوں کے خلاف کارروائی ہو۔

انہوں نے کہا کہ فوج کہہ چکی کہ اس کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ سابق وزیرِ اعظم عمران خان اور دیگر سیاسی رہنماؤں کی طرف سے ’نیوٹرل‘ کہہ کر فوج پر تنقید کرنا بہت خطرناک ٹرینڈ ہے۔

فوج کے سابق بریگیڈیئر کے مطابق اکتوبر 2021 کے بعد پاکستان کی فوج سیاست سے مکمل طور پر دور ہے۔ سیاسی رہنماؤں کو چاہیے کہ اپنی سیاست خود کریں۔ اپنے مسائل جمہوری انداز سے حل کریں۔ فوج صرف ریاستِ پاکستان کا سوچتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ماضی میں تمام سیاست دان فوج کی بیساکھی استعمال کرتے رہے ہیں اور کئی برس فوج اس میں حصہ لیتی رہی ہے لہٰذا فوج نے فیصلہ کیا ہے کہ اب وہ اس عمل میں شامل نہیں ہو گی۔

بریگیڈیئر ریٹائرڈ حارث نواز کے مطابق فوج سے سفارتی یا کسی اور معاملے پر پوچھا جائے گا تو وہ جواب دے گی اور سفارشات بھی پیش کی جائیں گی، مگر عملی طور پر وہ سیاسی فیصلوں میں شامل نہیں ہو گی۔ پاکستان کی فوج پر مسلسل تنقید ہو رہی ہے لیکن فوج اس پر کوئی جواب نہیں دے گی۔

تحریک انصاف کا موقف

پاکستان تحریک انصاف کے فواد چوہدری نے خرم دستگیر کی طرف سے نئے آرمی چیف کی تعیناتی اور آئندہ 15 سے 20 سال تک تحریک انصاف کی حکومت رہنے کے معاملہ پر ردعمل دیتے ہوئے کہا تھا کہ خرم دستگیر نے بتا دیا کہ اصل مسئلہ معیشت یا کچھ اور نہیں بلکہ احتساب تھا، ان لوگوں کو ڈر تھا کہ ان سب کے خلاف قائم کیسز کے نتائج سامنے آئیں گے جس کے بعد ان کے خلاف ایکشن لیا جائے گا اور انہیں جیلوں میں جانا پڑے گا جس کی وجہ سے ان لوگوں نے عمران خان حکومت کے خلاف سازش کی۔

آرمی چیف کے خلاف ٹرولنگ میں اگرچہ بظاہر پاکستان تحریک انصاف کی طرف جھکاو رکھنے والے اکاؤنٹس زیادہ فعال نظر آرہے ہیں لیکن پی ٹی آئی نے اپنے آفیشل ٹوئٹر اکاؤنٹ سے ایسے اکاؤنٹس سے لاتعلقی ظاہر کی اور کہا کہ پاکستان فوج کے خلاف ٹوئٹس کرنے والوں کا پاکستان تحریک انصاف سے کوئی تعلق نہیں لیکن اس کے باوجود پی ٹی آئی کے ہمدردوں کی طرف سے بڑی تعداد میں ٹوئٹس کی جارہی ہیں اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سمیت کئی سینئر افسران کی تصاویر لگا کر ان پر تنقید کی جارہی ہے۔

XS
SM
MD
LG