چین نے رواں سال اپنے دفاعی بجٹ میں 7.1 فی صد اضافہ کرنے کا اعلان کیا ہےجو کہ 2019 میں دفاعی بجٹ میں کیے گئے اضافے کے بعد سب سے زیادہ اضافہ ہے۔
دفاعی بجٹ میں یہ اضافہ اس لیے بھی اہم سمجھا جا رہا ہے کیوں کہ رواں سال ملک کی معیشت کی شرح نمو کئی دہائیوں کی کم ترین سطح یعنی پانچ اعشاریہ پانچ فی صد رہنے کی توقع ہے۔
روس کے یوکرین پر حملے کے بعد سے چین کے دفاعی اخراجات میں اضافے کو دنیا بھر میں محتاط نظر سے دیکھا جا رہا ہے۔
چین نے اس جنگ کے دوران کسی ایک فریق کے مؤقف کی حمایت سے نہ صرف گریز کیا ہے بلکہ روس کے یوکرین پر حملے کی بھی مذمت نہیں کی۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ چین، تائیوان پر حملے کے لیے موقعے کی تلاش میں ہےکیوں کہ چین تائیوان کو اپنا الگ ہو جانے والا صوبہ سمجھتا ہے اور وہ اسے طاقت کے ذریعے حاصل کرنے کے اشارے دیتا رہا ہے۔
واشنگٹن میں قائم ادارے نیئر ایسٹ ساؤتھ ایشیا سینٹر آف اسٹریٹیجک اسٹڈیز کے وزٹنگ فیلو موہن ملک نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جہاں دنیا کی توجہ یوکرین کی جانب ہے ایسے میں تائیوان کے ساتھ بحیرہ جنوبی چین اور ہمالیہ کے متنازع سرحدوں میں کشیدگی خارج از امکان نہیں ہے۔
موہن کے مطابق انڈو پیسیفک خطے کے لیے یہ عشرہ خطرات سے گھرا ہوا ہے۔
چین اس برس دفاعی اخراجات کی مد میں 229 ارب 47 کروڑ ڈالر کی خطیر رقم خرچ کرے گا۔
خیال رہے کہ 2021 میں چین کا دفاعی بجٹ 6.8 جب کہ 2020 میں 6.6 فیصد بڑھا تھا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ دفاعی بجٹ میں اصل رقم 270 ارب ڈالر کے لگ بھگ ہوسکتی ہے۔ جیسے سرحدوں پر سڑکیں بنانے کے کام کے اخراجات دفاعی بجٹ میں ظاہر نہیں کیے گئے۔
چینی حکام کا کہنا ہے کہ وہ ملک کی افواج کی تربیت اور جنگی تیاری کو بڑھانا چاہتے ہیں۔
چین کے پاس اس وقت دو ائیر کرافٹ کیرئیر ہیں جب کہ وہ مزید دو میں سرمایہ کاری کرنا چاہتا ہے۔
بحیرہ جنوبی چین میں چین اور امریکہ کے مابین مسابقت بڑھی ہے۔ بیجنگ میں قائم ریسرچ سینٹر کے مطابق گزشتہ برس امریکہ نے بحیرہ جنوبی چین میں 13 مرتبہ اپنا ائیر کرافٹ کیرئیر بھیجا ہے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ چین اب اپنے دفاع پر مزید خرچ کرنے پر مجبور ہے کیوں کہ امریکہ اب ٹٰیکنالوجی کو روک رہا ہے۔ ایسے ہی مختلف یورپی ممالک کر رہے ہیں۔
موہن ملک کا کہنا تھا کہ چین اب روس، جنوبی کوریا، جاپان، تائیوان، بھارت اور آسٹریلیا کی نسبت مجموعی طور پر دفاع پر زیادہ خرچ کرتا ہے۔
ان کے مطابق ایشیا میں طاقت کے توازن کا بدلنا خطے کے لیے خوش آئند نہیں ہے۔