رسائی کے لنکس

جب بانس پر کٹا ہوا سر لہرانا اعزاز تھا؛ ناگالینڈ کے 90 سالہ نوکھو کی کہانی


ناگالینڈ کا ایک جنگجو قبیلہ کونیاک ، جس کی روایات میں دشمنوں کے سر کاٹ کر بانس پر چڑھانا قابل فخر عمل تھا۔
ناگالینڈ کا ایک جنگجو قبیلہ کونیاک ، جس کی روایات میں دشمنوں کے سر کاٹ کر بانس پر چڑھانا قابل فخر عمل تھا۔

نوکھو کونیاک کی عمر 90 سال ہے۔ اب وہ بمشکل چند فٹ کے فاصلے تک ہی دیکھ سکتے ہیں۔ لیکن ان کی آنکھوں نے وہ مناظر بھی دیکھے ہیں جب ان کا قبیلہ دشمنوں کے سر بانسوں پر لہراتے ہوئے فتح کے شادیانے بجاتا اپنے گاؤں واپس لوٹتا تھا۔

نوکھو کا تعلق بھارتی علاقے ناگا لینڈ کے ایک جنگجو قبیلے کونیاک سے ہے۔ان کے جسم پر ایسے نقش و نگار کندہ ہیں جو لڑائیوں میں حصہ لینے والے نوجوان بنوایا کرتے تھے۔ ڈھلتی عمر کے ساتھ یہ جنگی علامتیں مدھم پڑ رہی ہیں اور ان کا قبیلہ بھی جنگ و جدل چھوڑ کر امن اور ترقی کے راستے پر چل رہا ہے۔

نوکھو نے خبررساں ادارے اے ایف پی سے باتیں کرتے ہوئے ماضی کی ان یادوں کو تازہ کیا جب ان کے بزرگ دشمنوں ے سر کاٹ کر لایا کرتے تھے۔ وہ خود بھی کئی جنگوں میں حصہ لے چکے ہیں۔

کونیاک ریاست ناگا لینڈ کے شمال مشرقی علاقے کا چھوٹا اور جنگجو قبیلہ ہے۔ میانمار کی سرحد پر گھنے جنگلوں اور پہاڑی سلسلے میں آباد یہ وہ آخری قبیلہ ہے جس نے جنگیں لڑنے اور دشمنوں کے سر کاٹ کر بانسوں پر لہرانے کی صدیوں پرانی روایت ترک کر دی ہے۔

یہ گانگ جن ہیں۔ ان کا تعلق کونیاک قبیلے سے ہے اوروہ اپنے قبیلے کے سردار کے مشیر ہیں۔
یہ گانگ جن ہیں۔ ان کا تعلق کونیاک قبیلے سے ہے اوروہ اپنے قبیلے کے سردار کے مشیر ہیں۔

ناگالینڈ کے صدر مقام دیماپور سے تقریباً 360 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ایک گاؤں ’ چی‘ میں گزرے دنوں کو یاد کرتے ہوئے نوکھو نے کہا کہ میں خوش قسمت ہوں کہ ابھی زندہ ہوں اور اپنے بڑے خاندان کے ساتھ رہ رہا ہوں۔ مجھے خوشی ہے کہ میری نئی نسل کو بہت سی آسائشیں اور سہولتیں میسر ہیں جن کا ہم نے کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا۔

نوکھو نے بتایا کہ وہ اس نسل کے آخری لوگوں میں سے ہیں جنہوں نے نصف صدی قبل مختلف رنگوں سے اپنے جسم پر نقش و نگار بنانے اور دشمن کے کٹے ہوئے سروں کا نظارہ کرنا چھوڑ دیاتھا۔

نوکھو کے گھر کی دیواریں ان جانوروں کے سروں سے سجی ہیں جن کا شکار ان کے خاندان کے لوگوں نے کیا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ کٹے ہوئے سر کو اپنے پاس رکھنا ہمارے لیے بڑے اعزاز کی بات ہے۔خاص طور پر انسانی کھوپڑی رکھنا تو بڑے افتخار اور دلیری کی علامت تھی۔

جسموں پر رنگوں سے نقش و نگار بنانے کا بھی ایک اصول تھا۔ جنگ میں حصہ لینے، کسی کو ہلاک کرنے اور سر کاٹ کر لانے کی علامت کے لیے الگ الگ رنگ استعمال کیے جاتے تھے۔

کونیاک قبیلے کے جنگجو دشمن کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہو رہے ہیں۔
کونیاک قبیلے کے جنگجو دشمن کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہو رہے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ میں نے اپنی پوری زندگی میں کسی انسان کا سر نہیں کاٹا لیکن قبیلے کی اس روایت کے پیش نظر اپنی نوجوانی میں بڑے سائز کی کٹھ پتلیوں کے سر ضرور کاٹے ہیں۔

نوکھو نے پل بھر کے لیے آنکھیں موندھ کر ماضی میں جھانکا اور بولے۔ میں نے ان دو بزرگوں کو دیکھا ہوا ہے جو دشمن کے سر کاٹ کر بستی میں لائے تھے۔ انسانی سر کاٹنے والے وہ ہمارے قبیلے کے آخری لوگ تھے۔ انہیں مرے ہوئے 20 سال سے اوپر ہو چکے ہیں۔

انہیں اپنی جوانی کے وہ دن یاد ہیں جب لڑائی سے واپسی پر دشمن کے سر بانس پر چڑھا کر گاؤں میں لائے جاتے تھے اور جنگجوؤں کا خیرمقدم ایک بڑے جشن میں کیا جاتا تھا۔ مگر انگریزوں کے دور حکومت میں مسیحی مشنریوں کے پھیلاؤ نے ناگالینڈ کے قدیم قبائل کی ثقافت اور رسموں کو بھی متاثر کیا اور کونیاک قبیلے کے زیادہ تر لوگ اپنی جنگی روایات چھوڑ کر رفتہ رفتہ عیسائی بن گئے۔

کونیاک قبیلے کے سرکردہ افراد ہونگ فوئی گاؤں میں ایک روایتی تقریب میں شریک ہیں۔
کونیاک قبیلے کے سرکردہ افراد ہونگ فوئی گاؤں میں ایک روایتی تقریب میں شریک ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ مجھے دوسری جنگ عظیم کا اختتام، بھارت کی آزادی، ہمارے گاؤں تک سڑک کی تعمیر اور پھر کھمبے لگانے اور گھروں تک بجلی پہنچانے کے مناظر یاد ہیں اور جب ہمارے گاؤں میں موبائل فون پہنچا تو گویا سب کچھ ہی بدل گیا۔

نوکھو کے گاؤں ’چی‘ کے قریب ایک اور گاؤں ’ہونگ فوئی‘ ہے۔ اس گاؤں کے لوگ بھی سروں کا شکار کرتے تھے ۔ لیکن جب انسانی سر کاٹنے پر پابندی لگی تو وہ جنگلی جانوروں کا شکار کھیلنے اور ان کے سر کاٹ کر اپنی اس روایت کو آگے بڑھانے لگے۔

ہونگ فوئی گاؤں کی سرداری وانگ خاندان کے پاس ہے۔90 سالہ بو وانگ کہتے ہیں کہ وہ دور ختم ہو گیا جب ہر کوئی اس خوف میں رہتا تھا کہ کب دشمن گھات لگا کر حملہ کر دے گا۔ ہمیں اس زمانے میں یہ سکھایا جاتا تھا کہ خطرے سے کس طرح چوکنا رہنا ہے اور کیسے دشمن کا مقابلہ کرنا ہے۔ لیکن اب یہ پرامن علاقہ بن گیا ہے۔ اب خوف باقی نہیں رہا۔ جدیدیت نے سب کچھ بدل دیا ہے۔ پھر وہ افسردہ ہو کر بولے، ترقی کا عمل ہماری صدیوں پرانی روائتوں کو نگل رہا ہے۔

انہیں اس بات کا بھی دکھ ہے کہ پہلے سردار اور بزرگوں کا بڑا احترام تھا، اب ویسا کچھ نہیں رہا۔

یہ دشمن کو ڈرانے کے لیے ہتھیاروں کا مظاہرہ نہیں ہے بلکہ کونیاک قبیلے کے نوجوان روایتی رقص کر رہے ہیں۔
یہ دشمن کو ڈرانے کے لیے ہتھیاروں کا مظاہرہ نہیں ہے بلکہ کونیاک قبیلے کے نوجوان روایتی رقص کر رہے ہیں۔

وانگ کی بیوی کامیا کی عمر 80 سال ہے۔ انہیں اس بات کی خوشی ہے کہ ان کی پوتیوں کو اب وہ کچھ نہیں دیکھنا پڑا جن حالات سے ان کی نسل گزر چکی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمارے دور میں مشکلات بہت تھیں۔ خوف اور پریشانی بہت تھی۔ خوراک اور وسائل بہت کم تھے۔ خواتین کے لیے تو صورت حال اور بھی خراب تھی۔ انہیں گھر اور کھیتوں میں کام کرنا پڑتا تھا اور ڈر کی حالت میں زندگی گزارنی پڑتی تھی۔

کونیاک قبیلے کے 34 سالہ کیپاک اپنی روایات اور ثفافت کو محفوظ بنانا چاہتے ہیں۔ انہوں نے اس مقصد کے لیے ایک تنظیم قائم کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ تاریخ کو ضائع نہیں ہونا چاہیے۔ تاریخ میں ہماری جڑیں بہت گہری ہیں۔ ہم جدید تعلیم اور نئے دور کی سہولتوں کے ساتھ آگے بڑھتے ہوئے اپنی قابل فخر ثقافت اور روایات کو گم ہونے سے بچانا چاہتے ہیں۔

( اس کہانی کا کچھ مواد اے ایف پی سے لیا گیا ہے)

XS
SM
MD
LG