رسائی کے لنکس

بھارتی سپریم کورٹ نے حکومت کو ’بلڈوزر جسٹس‘ سے روک دیا


نئی دہلی کی ایک مسلم اکثرتی آبادی میں ایک مکان کی تعمیر کو غیر قانونی قرار دے کر بلڈوزر سے گرایا جا رہا ہے۔ بھارت کی زیادہ تر ان ریاستوں میں جہاں بی جے پی کی حکومت ہے، مسلمانوں کی املاک اس اقدام کا نشانہ بنتی ہیں جسے عموماً بلڈوزر جسٹس کہا جاتا ہے۔
نئی دہلی کی ایک مسلم اکثرتی آبادی میں ایک مکان کی تعمیر کو غیر قانونی قرار دے کر بلڈوزر سے گرایا جا رہا ہے۔ بھارت کی زیادہ تر ان ریاستوں میں جہاں بی جے پی کی حکومت ہے، مسلمانوں کی املاک اس اقدام کا نشانہ بنتی ہیں جسے عموماً بلڈوزر جسٹس کہا جاتا ہے۔
  • بھارت میں سرکاری حکام پرائیویٹ پراپرٹی کو غیرقانونی قرار دے کر گرا دیتے ہیں جس کے لیے عموماً بلڈوزر جسٹس کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔
  • اس کا نام بلڈوزر جسٹس اس لیے پڑا ہے کیونکہ عمارتیں گرانے کے لیے زیادہ تر بلڈوزر استعمال کیے جاتے ہیں۔
  • بھارت میں یہ کارروائیاں بیشتر ان ریاستوں میں ہوتی ہیں جہاں ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت ہے۔
  • متاثرین کا کہنا ہے کہ ان کی املاک قانونی نوٹس کے بغیر گرائی گئیں ہیں۔
  • ایمنسٹی انٹرنشنیل کا کہنا ہے کہ بلڈوزر جسٹس مسلم اقلیت کے خلاف بدنیتی پر مبنی کارروائی ہے۔

بھارت کی اعلیٰ ترین عدالت نے منگل کے روز حکام کو حکم دیا کہ وہ لوگوں کو مجرمانہ سرگرمیوں پر سزا دینے کی غرض سے ان کی نجی املاک کو بل ڈوزر کے ذریعے مسمار کرنے کے عمل کو عدالت کا حتمی فیصلہ آنے تک روک دے۔

عدالت نے بلڈوزوں سے املاک گرانے کے اقدام کی مذمت کی ہے۔

وزیراعظم نریندر مودی کی ہندو قوم پرست حکومت اکثر اوقات یہ کہتے ہوئے لوگوں کی نجی املاک کو بلڈوزروں اور زمین ہموار کرنے والی مشینری کی مدد سے گرا دیتی ہے کہ وہ غیرقانونی تعمیرات کے خلاف کارروائی کر رہی ہے اور وہ اسے مجرمانہ سرگرمی کے خلاف ٹھوس جواب قرار دیتی ہے۔

’بلڈوزر انصاف‘ کا اقدام عموماً ایسے افراد کے خلاف کیا جاتا ہے جنہیں غیر قانونی تعمیرات پر مقدمے کا سامنا ہوتا ہے۔

سپریم کورٹ نے، جو ان دنوں مودی حکومت کے اس اقدام کو چیلنج کرنے والی متعدد درخواستیں سن رہی ہے، حکومت سے کہا ہے کہ وہ اس کیس کے سلسلے میں یکم اکتور کو ہونے والی اگلی سماعت تک اپنی ’بلڈوزر جسٹس‘ کو روک دے۔

گزشتہ ہفتے اپنی سماعت میں عدالت نے کہا تھا کہ حکام کا یہ عمل ملکی قوانین پر بلڈوزر چلانے کے مترادف ہے۔

ججوں کا مزید کہنا تھا کہ ’کسی جرم میں مبینہ طور پر ملوث ہونا اس کی فرد کی جائیداد کو مسمار کرنے کی بنیاد نہیں ہے‘۔

انسانی حقوق کے گروپ اس حکومتی اقدام کو اجتماعی سزا کی ایک غیر قانونی مشق قرار دے کر اس کی مذمت کر چکے ہیں۔اکثر اوقات اس طرح کی کارروائیوں میں اقلیتی مسلم کمیونٹی کو ہدف بنایا جاتا ہے۔

مقدمے کی سماعت کرنے والے تین ججوں کے پینل میں شامل جسٹس بھوش رام کرشن گاوائی نے کہا کہ چاہے کسی شخص کو مجرم ہی کیوں نہ قرار دیا گیا ہو ، اس کی پراپرٹی کو منہدم نہیں کیا جا سکتا۔ املاک کا انہدام صرف قانون کے تحت طریقہ کار کے مطابق ہی کیا جا سکتا ہے۔

نجی املاک کو گرانے کی مہم کا آغاز 2017 میں ریاست اترپردیش میں ایک ہندو راہب یوگی ادتیا ناتھ کی حکومت نے کیا تھا۔ انہیں بھارتیہ جنتا پارٹی کے وزیر اعظم نریندر مودی کے جانشین کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔

اس کے بعد ’بلڈوزرجسٹس‘ نامی یہ مہم ان کئی ریاستوں میں پھیل گئی جہاں بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت قائم تھی۔

سرکاری عہدے داروں کا کہنا ہے کہ ان کا املاک گرانے کا عمل قانونی ہے کیونکہ وہ صرف ان تعمیرات کو نشانہ بناتے ہیں جو منظوری کے قانونی تقاضے پورے کیے بغیر تعمیر کی جاتی ہیں۔

لیکن اس مہم کی زد میں آنے والے اپنی تعمیرات کے غیر قانونی ہونے سے انکار کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انہیں جائیداد کی تعمیر کو متنازع قرار دینے کے احکامات کے لیے درکار مطلوبہ مدت کا نوٹس نہیں دیا گیا۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل نے کہا ہے کہ جن لوگوں کی املاک گرائی گئیں، انہیں اس مقصد کے لیے چنا گیا تھا اور یہ بھارت کی اقلتی مسلم کمیونٹی کے خلاف بدنیتی پر مبنی کریک ڈاؤن کا حصہ تھا۔

(اس رپورٹ کی معلومات اے ایف پی سے لی گئیں ہیں)

فورم

XS
SM
MD
LG