|
نئی دہلی -- بھارتی سپریم کورٹ کی جانب سے مبینہ ’بلڈوزر جسٹس‘ کے خلاف سخت ریمارکس دیے جانے کا حزب اختلاف کی جماعتوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کی جانب سے خیر مقدم کیا جا رہا ہے اور اسے امید کی کرن کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
تاہم مبصرین کا کہنا ہے کہ چوں کہ بلڈوزر کارروائیوں کے پس پشت سیاسی مقاصد کارفرما ہوتے ہیں اس لیے اس پر نظر رکھنا ہو گی کہ اس بارے میں سپریم کورٹ جو رہنما ہدایات جاری کرنے والی ہے ان کو انتظامی احکامات کی بنیاد پر بے اثر نہ کر دیا جائے۔
بعض اخبارات نے اپنے اداریوں میں لکھا ہے کہ عدالت کو دیکھنا ہو گا کہ مذہب کی بنیاد پر ہونے والے تشدد کے بعد انہدامی کارروائیوں کو انتظامی چالاکی سے جائز ٹھہرانے کی کوشش نہ کی جائے۔
واضح رہے کہ جسٹس بی آر گوئی اور کے وی وشوناتھن کے بینچ نے پیر کو مختلف الزامات کے تحت بلڈوزر سے مکانوں کے انہدام کی کارروائیوں کے خلاف دائر درخواستوں پر سماعت کرتے ہوئے سخت ریمارکس دیے اور کہا کہ سنگین جرم میں مجرم ثابت ہونے والے شخص کے مکان کو بھی بلڈوزر سے منہدم نہیں کیا جا سکتا۔
یاد رہے کہ 2022 میں اترپردیش کی حکومت کی جانب سے بلڈوزر کارروائی کا آغاز کیا گیا تھا۔ متعدد شہروں میں لوگوں کے مکان غیر قانونی قرار دے کر منہدم کر دیے گئے جس کی وجہ سے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کی مقبولیت میں اضافہ ہوا اور انھیں 'بلڈوزر بابا' کہا جانے لگا۔
بعد ازاں مدھیہ پردیش کے سابق وزیر اعلیٰ شیو راج سنگھ چوہان نے بلڈوزر کا استعمال شروع کیا اور کھرگون میں 29 عمارتوں کو منہدم کیا گیا۔
سپریم کورٹ نے 2022 میں بھی دہلی کے علاقے جہاں گیر پوری، اترپردیش، مدھیہ پردیش، گجرات اور اتراکھنڈ میں مسلمانوں کے مکانوں اور دکانوں کو غیر قانونی قرار دے کر بلڈوزر سے منہدم کرنے کا سخت نوٹس لیا تھا اور مرکزی حکومت اور متعلقہ ریاستی حکومتوں کو نوٹس جاری کرکے جواب طلب کیا تھا۔
لیکن اس کے بعد بھی مکانات گرانے کا سلسلہ جاری رہا۔ تازہ واقعات مدھیہ پردیش کے چھترپور اور راجستھان کے ادے پور میں پیش آئے۔
حزبِ اختلاف اور انسانی حقوق کے کارکنوں کا خیر مقدم
کانگریس صدر ملک ارجن کھڑگے، سینئر کانگریس رہنما راہل گاندھی، پرینکا گاندھی و دیگر اور سماجوادی پارٹی کے صدر اکھلیش یادو نے سپریم کورٹ کے ریمارکس کا خیر مقدم کیا ہے۔
راہل گاندھی کے مطابق بلڈوزر سے انسانیت اور انصاف کو کچل دیا گیا ہے۔ سپریم کورٹ کے ریمارکس سے بی جے پی کا غیر آئینی چہرہ بے نقاب ہو گیا۔
اکھلیش یادو نے کہا کہ نام نہاد بلڈوزر جسٹس پر انصاف کا بلڈوزر چل گیا۔ یہ غیر قانونی کارروائی تھی اور ہم لوگ پہلے ہی اس کے خلاف آواز بلند کرتے رہے ہیں۔
سپریم کورٹ کے بینچ کے مطابق اگر کسی کا بیٹا بدتمیز ہے اور اس کی کسی خطا پر اس کا مکان گرا دیتے ہیں تو صورتِ حال سے نمٹنے کا یہ مناسب طریقہ نہیں۔
'مکان گرانے سے پوری فیملی بے گھر ہو جاتی ہے'
یاد رہے کہ انسانی حقوق کے متعدد کارکنوں کا کہنا ہے کہ بلڈوزر کارروائی کسی ایک شخص کے جرم کی اجتماعی سزا ہے۔ مکان گرانے سے پوری فیملی بے گھر ہو جاتی ہے۔
عدالت اس معاملے پر 17 ستمبر کو پھر سماعت کرے گی۔ اس نے بلڈوزر معاملے پر پورے ملک کے لیے رہنما ہدایات جاری کرنے کی بات کہی ہے۔
تاہم عدالت نے یہ بھی کہا کہ وہ ناجائز تعمیرات کی حمایت نہیں کرتی۔ اگر کوئی تعمیر غیر قانونی ہے تو اسے توڑا جا سکتا ہے۔ لیکن اس کے لیے ضابطوں کی پابندی کرنا ہو گی۔
رپورٹس کے مطابق 23 اگست کو مدھیہ پردیش کے چھترپور کے مسلمان مہاراشٹر کے ایک ہندو مذہبی رہنما رام گری مہاراج کے مبینہ اہانت آمیز بیان کے خلاف رپورٹ درج کرانے تھانے گئے تھے جہاں تشدد برپا ہو گیا تھا۔
جس پر انتظامیہ نے کانگریس کے سابق ضلعی نائب صدر حاجی شہزاد احمد کی 11 ہزار مربع فٹ پر واقع کروڑوں روپے مالیت کی کوٹھی غیر قانونی قرار دے کر منہدم کر دی۔
قبل ازیں راجستھان کے ادے پور میں دو نابالغ طلبہ میں لڑائی کے بعد مسلم طالب علم نے اپنے ہندو ساتھی کو چاقو مار دیا تھا۔ بعد ازاں اس کی موت واقع ہو گئی۔ انتظامیہ نے 17 اگست کو اس کے کرائے کے مکان کو منہدم کر دیا جس میں چار خاندان رہائش پذیر تھے جو بے گھر ہو گئے۔
انسانی حقوق کی ایک سرکردہ تنظیم ’ایسو سی ایشن فار پروٹکشن آف سول رائٹس‘ (اے پی سی آر) سے وابستہ ندیم خان کہتے ہیں کہ اس سے قبل کوئی بھی متاثرہ شخص انہدامی کارروائی کے خلاف براہ راست عدالت نہیں گیا۔ جو بھی درخواست دی گئی وہ مفاد عامہ (پی آئی ایل) کی شکل میں دی گئی جس پر عدالت نے کوئی دلچسپی نہیں دکھاتی۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ اے پی سی آر نے پٹیشن داخل کرنے کا فیصلہ کیا۔ لیکن متاثرین خوف کی وجہ سے فریق بننے کو تیار نہیں تھے۔
انھوں نے مزید بتایا کہ مختلف ہائی کورٹس میں اے پی سی آر کی جانب سے تقریباً 80 معاملات میں پیروی کی جا رہی ہے۔ تنظیم کی کوششوں سے مختلف ہائی کورٹس سے انہدامی کارروائیوں کو رکوایا بھی گیا ہے۔
'سپریم کورٹ کافی عرصے سے اس معاملے کو دیکھ رہی تھی'
سینئر تجزیہ کار ابھے کمار کہتے ہیں کہ سپریم کورٹ ایک عرصے سے دیکھ رہی تھی کہ حکومت کی جانب سے طاقت کا بیجا استعمال کیا جا رہا ہے۔ زیادہ تر مسلمانوں کے مکانات منہدم کیے گئے ہیں۔ تاہم ایسی رپورٹس بھی ہیں کہ دلتوں اور پسماندہ برادریوں کے مکانات بھی توڑے گئے ہیں جو سراسر غیر آئینی و غیر قانونی ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ انہدامی کارروائیوں کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ مسلمانوں اور دلتوں میں خوف کا ماحول پیدا ہو اور وہ اپنے حقوق کی آواز بلند نہ کر سکیں۔ جنھوں نے آواز بلند کی ان کے مکانات غیر قانونی قرار دے کر توڑ دیے گئے۔
واضح رہے کہ چھترپور کے مسلمان اہانت انگیزی کے خلاف رپورٹ درج کرانا چاہتے تھے اور ایک بااثر مسلمان کی عالیشان کوٹھی ڈھا دی گئی۔ اسی طرح جون 2022 میں پریاگ راج (الہ آباد) کے ایک سماجی کارکن جاوید محمد کا مکان غیر قانونی قرار دے کر توڑ دیا گیا۔
جاوید محمد شہریت کے ترمیمی قانون سی اے اے کے خلاف مظاہرے میں پیش پیش رہے ہیں۔ ایسے اور بھی واقعات ہوئے ہیں۔
ابھے کمار مزید کہتے ہیں کہ اگر سپریم کورٹ کی جانب سے پہلے ہی گائیڈ لائنز جاری کی گئی ہوتیں تو بہت سے لوگوں کے مکانوں کو بچا لیا گیا ہوتا۔
سیاسی فائدہ اٹھانے کے حوالے سے انھوں نے کہا کہ آج جو لوگ اقتدار میں ہیں ان کو ووٹ دینے والوں کی تعداد 40 فی صد سے کم ہے۔ ہندوؤں کی بڑی تعداد جس میں دلت اور چھوٹی ذات کے ہندو شامل ہیں، بی جے پی کو ووٹ نہیں دیتے۔ ان کے مطابق یہ عمارت شکنی سے زیادہ ہمت شکنی کا معاملہ ہے۔
حکومت کا مؤقف
واضح رہے کہ حکومت و انتظامیہ کا مؤقف ہے کہ انہدامی کارروائیاں کارپوریشن کی جانب سے کی جاتی ہیں۔ جس مکان یا دکان کی تعمیر غیر قانونی پائی جاتی ہے اس کو توڑا جاتا ہے تاکہ تجاوزات کو ختم کیا جا سکے۔
انسانی حقوق کے کارکن سوال کرتے ہیں کہ جب لوگ حکومت کے کسی فیصلے کے خلاف احتجاج کرتے ہیں تب جا کر کارپوریشن کو ناجائز تعمیر کا پتا کیوں چلتا ہے، پہلے کیوں نہیں چلتا۔ وہ انہدام کے طریقۂ کار پر بھی سوال اٹھاتے ہیں۔
مدھیہ پردیش، آسام اور راجستھان میں بھی بلڈوزر کے استعمال کے ذریعے لوگوں کی املاک گرانے پر حکام کو تنقید کا سامنا ہے۔
فورم