بھارت کے وزیرِاعظم من موہن سنگھ نے ملک میں سائنسی تحقیق کے لیے مختص بجٹ کو دگنا کرنے پہ زور دیتے ہوئے اس بات پر تشویش ظاہر کی ہے کہ بھارت سائنسی صلاحیتوں کے میدان میں چین سے پیچھے جارہا ہے۔
بھارتی وزیرِ اعظم نے ان خیالات کا اظہار منگل کو مشرقی ریاست اڑیسہ کے شہر بھوبنیسورمیں 99ویں 'انڈین سائنس کانگریس' کے افتتاحی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
بھارتی حکام سائنسی ترقی کو ملک کے لیے انتہائی ضروری قرار دیتے ہیں کیوں کہ ملکی معیشت کا بیشتر انحصار انجینئرز اور سائنس دانوں پر ہے۔
جہاں چین کی معیشت سستی پیداواری صلاحیت پر استوار ہے وہیں بھارت اپنے سافٹ ویئر انجینئرز کی صلاحیتوں کے طفیل انفارمیشن ٹیکنالوجی کا ایک مرکز بن گیا ہے۔
بھارتی تعلیمی اداروں سے ہر سال ساڑھے سات لاکھ انجینئرز اور سائنس گریجویٹ فارغ التحصیل ہورہے ہیں اور بھارت اپنی اسی صلاحیت کا استعمال کرتے ہوئے دانش کا ایک عالمی مرکز بننا چاہتا ہے۔
تاہم بھارت کو اپنے اس خواب کا حصول چین کی وجہ سے مشکل میں پڑتا نظر آرہا ہے جس نے حالیہ چند برسوں کے دوران سائنس، تحقیق اور ایجادات کی مد میں اخراجات میں کئی گنا اضافہ کردیا ہے جس کا مقصد نہ صرف دنیا کے لیے نت نئی مصنوعات تیار کرنا ہے بلکہ انہیں جدید بنانا بھی ہے۔
حال ہی میں امریکہ میں سائنس اور انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کرنے والے چینی طالبِ علموں کی تعداد وہاں زیرِ تعلیم بھارتی طالبِ علموں سے بڑھ گئی ہے۔
بھارتی وزیرِاعظم نے اپنے ملک کو اس میدان میں دوبارہ آگے لے جانے کی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے نجی شعبے پر زور دیا ہے کہ وہ سائنسی تحقیق کے میدان میں اپنا کردار بڑھائے۔
ان کا کہنا تھا کہ جنرل الیکٹرک اور موٹرولا جیسی بین الاقوامی کمپنیوں نے بھارت میں عالمی معیار کے تحقیقاتی مراکز قائم کیے ہیں جب کہ بہت کم مقامی کمپنیوں نے اس نوعیت کے اقدامات کیے ہیں۔
حالیہ چند برسوں کے دوران بھارتی کمپنیوں کی جانب سے اس شکایت میں اضافہ ہوا ہے کہ انہیں درکار صلاحیتوں کے افراد میسر نہیں آرہے۔
بھارتی کمپنیوں کا موقف رہا ہے کہ ملک میں تعلیمی معیار کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے کیوں کہ انجینئرز اور دیگر افراد جو صلاحیتیں لے کر تعلیمی اداروں سے نکل رہے ہیں وہ ناکافی ہیں۔