بھارت نے یوکرین کے قصبے بوچا میں عام شہریوں کی ہلاکتوں پر انتہائی سخت الفاظ میں مذمت کی ہے اور ان ہلاکتوں کی آزادانہ تحقیقات کے مطالبے کی حمایت کی ہے۔ یہ پہلا موقع ہے جب بھارت نے یوکرین میں شہریوں کی اموات پر سخت الفاظ کا استعمال کیا ہے۔
نئی دہلی نے مغربی ممالک کی طرح ان ہلاکتوں کے لیے روس کو ذمہ دار ٹھہرانے سے گریز کیا ہے البتہ اس نے یوکرین جنگ کے سلسلے میں اپنے عوامی بیان میں پہلی بار لفظ ’مذمت‘ کا استعمال کیا۔
خیال رہے کہ اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل ایتونیو گوتریس نے بوچا میں ہونے والی ہلاکتوں کی آزادانہ تحقیقات کی تجویز دی ہے۔ مذکورہ بیان سلامتی کونسل میں یوکرین پر ہونے والے اجلاس کے دوران بھار ت کے مستقل مندوب ٹی ایس تری مورتی نے دیا۔ اس اجلاس سے یوکرین کے صدر ولودیمیر زیلنسکی نے بھی ویڈیو کانفرنسنگ سے خطاب کیا۔
روس نے بوچا میں عام شہریوں کی ہلاکتوں کے الزام کی تردید کی ہے۔ ماسکو کا کہنا ہے کہ لاشوں کی جو تصاویر دکھائی جا رہی ہیں وہ فوٹو شاپ کرکے بنائی گئی ہیں۔ روسی فورسز نے عام شہریوں کو شروع سے ہی نشانہ بنانے سے گریز کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ جنگ اتنا طول پکڑ رہی ہے۔
انہوں نے اپنے بیان میں کہا کہ ہم جنگ کے سخت خلاف ہیں۔ خون خرابے اور بے قصوروں کی ہلاکتوں سے مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ کسی بھی تنازع کا واحد حل سفارت کاری اور مذاکرات سے ہی نکل سکتا ہے۔
ٹی ایس تری مورتی نے کہا کہ بوچا میں عام شہریوں کی حالیہ ہلاکتیں پریشان کن ہیں۔ نئی دہلی سخت انداز میں اس کی مذمت اور آزادانہ تحقیقات کے مطالبے کی حمایت کرتا ہے۔
کیا بھارت کا موقف بدل رہا ہے؟
بوچا میں عام شہریوں کے ہلاکتوں سے متعلق تری مورتی کے اس بیان کے بعد یہ سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ کیا یوکرین کے سلسلے میں بھارت کا مؤقف بدل رہا ہے۔
بین الاقوامی امور کے سینئر تجزیہ کار ڈاکٹر ذاکر حسین کے خیال میں بھارت کا مؤقف جوں کا توں ہے۔ انہوں نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ ٹی ایس تری مورتی کے بیان سے یہ مفہوم نہیں نکالا جانا چاہیے کہ بھارت کے مؤقف میں کوئی تبدیلی آ رہی ہے۔
خیال رہے کہ بھارت روس یوکرین تنازع کے سلسلے میں اب تک غیر جانب دارانہ اور متوازن مؤقف اختیار کیے ہوئے ہے۔
اس نے اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل اور دیگر پلیٹ فارمز پر روس کی مذمت کے لیے پیش کی جانے والی قراردادوں پر ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔
اس سے قبل امریکہ نے بار بار بھارت سے اپیل کی تھی کہ وہ روس کی جارحیت کی مذمت کرے جب کہ بھارت نے روس کی مذمت کرنے سے گریز کیا تھا۔
گزشتہ ہفتے روس کے وزیرِ خارجہ سرگئی لاوروف نے نئی دہلی کا دورہ کیا تھا اور اپنے بھارتی ہم منصب ایس جے شنکر سے مذاکرات کیے تھے۔ فریقین نے یوکرین تنازع پر بھی تبادلۂ خیال کیا تھا۔
ڈاکٹر ذاکر حسین کہتے ہیں کہ یہ بات درست ہے کہ بھارت نے پہلی بار لفظ ’مذمت‘ کا استعمال کیا ہے لیکن یہ بھی درست ہے کہ اس نے اپنے بیان میں روس کا نام نہیں لیا ۔ اس نے آزادانہ تحقیقات کی بات کی ہے جو کہ اقوامِ متحدہ بھی کہتی ہے۔
’امریکہ بھارت پر دباؤ ڈال رہا ہے‘
وہ کہتے ہیں کہ امریکہ چین سمیت کئی ممالک پر دباؤ ڈال رہا ہے البتہ بھارت پر اس کا دباؤ بہت واضح ہے۔ ابھی اس کے ڈپٹی نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزر نے نئی دہلی کے دورے میں کہا تھا کہ اگر چین لائن آف ایکچوئل کنٹرول کی خلاف ورزی کرے گا تو بھارت کو روس بچانے نہیں آئے گا۔ اس کے باوجود بھارت کے مؤقف میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔
حکومت کے ذرائع بھی بھارت کے مؤقف میں کسی بھی قسم کی تبدیلی سے انکار کر رہے ہیں۔ ان کے مطابق بھارت کی جانب سے آزادانہ تحقیقات کا مطالبہ اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل کی تجویز کی حمایت میں ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ یوکرین روس جنگ کے سلسلے میں بھار ت کا مؤقف بدل رہا ہے۔
جب کہ ڈاکٹر ذاکر حسین کہتے ہیں کہ امریکہ بھارت پر تو دباؤ بنا رہا ہے لیکن متبادل پیش نہیں کر رہا ۔ اس نے روس پر جو پابندیاں لگائی ہیں توانائی کو ان سے باہر رکھا ہے۔
نئی دہلی کی کوششوں کا ذکر کرتے ہوئے ان کا مزید کہنا ہے کہ بھارت نے حالیہ دنوں میں امریکہ کو بھی خوش کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس نے امریکہ سے تیل اور گیس کی درآمد میں11 فی صد کا اضافہ کیا ہے۔ بھارت سب سے زیادہ توانائی امریکہ سے درآمد کرتا ہے۔ تقریباً 18 سے 20 فی صد امریکی تیل بھارت میں آرہا ہے۔
ان کے خیال میں بھارت کا مؤقف اس کے اپنے قومی مفادات کی بنیاد پر ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ وہ امریکہ کو پوری طرح نظر انداز نہیں کر سکتا اور وہ روس کو بھی نہیں چھوڑ سکتا۔ ہتھیاروں اور توانائی کے تعلق سے روس پر بھارت کا انحصار ہے۔
انہو ں نے کہا کہ اس وقت توانائی کی قیمتیں بہت تیزی سے بڑھی ہیں۔ خام تیل، گیس اور کوئلے کی بھی قیمتیں بڑ رہی ہیں۔ حکومت کی ایک نئی رپورٹ کے مطابق کوئلے کی قیمت میں 45 سے 55 فی صد تک کا اضافہ ہوا ہے۔
نئی دہلی کی حکمتِ عملی کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ امریکہ کو اس بات کو سمجھنا ہوگا کہ کیا بھارت کے مؤقف سے روس فوری طور پر جنگ بند کر دے گا؟ دوسری طرف اب تک کی صورتِ حال میں ایسا لگتا ہے کہ روس کو عالمی سطح پر الگ تھلگ کرنا ممکن نہیں ہے۔ جنگ کے بعد سے روس کو اسلحے اور تیل وغیرہ کی فروخت سے 316 ارب ڈالر کی آمدنی ہوئی ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ روس بھارت کو 25 سے 30 ڈالر فی بیرل میں خام تیل دے رہا ہے۔ جب کہ عالمی مارکیٹ میں اس کی قیمت 100 سے زیادہ ہو گئی ہے۔ ان حالات میں بھارت روس کو کیسے چھوڑ سکتا ہے اور اپنی معیشت کو کیسے تباہ کر سکتا ہے۔
ان کے خیال میں کرونا وائرس کے بعد بہت ہی غیر متوقع حالات میں یہ جنگ شروع ہوئی ہے اور مغرب کی جانب سے غیر متوقع مطالبات کیے جا رہے ہیں۔
بعض دیگر مبصرین کا خیال ہے کہ بوچا میں ہونے والی ہلاکتوں کی وجہ سے انتہائی عرق ریزی سے تیار کیے گئے بھارت کے سفارتی مؤقف کو خطرات لاحق ہو گئے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ اسے بوچا ہلاکتوں کی مذمت کرنا پڑی جو کہ بالواسطہ طور پر روس کو موردِ الزام ٹھہرانا ہے۔
’بھارت کے لیے امکانات محدود ہوتے جا رہے ہیں‘
بین الاقوامی امور کے تجزیہ کار سندیپن شرما نیوز ویب سائٹ ’نیوز نائن لائیو‘ کے لیے اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ بوچا کی ہلاکتوں کے سلسلے میں جو عالمی رائے عامہ بنی ہے اس کے پیشِ نظر بھارت کا اپنے متوازن مؤقف کو قائم رکھنا مشکل ہو رہا ہے۔
ان کے مطابق بھارت کی جانب سے ہلاکتوں کی مذمت اور ان کی آزادانہ تحقیقات کے مطالبے کی حمایت سے ایسا لگتا ہے کہ جنگ کی سفاکی کی وجہ سے بھارت کے لیے امکانات محدود ہوتے جا رہے ہیں۔
ان کے خیال میں بھارت کے لیے مسئلہ یہ ہے کہ پوری دنیا میں روس کے خلاف بیانیہ تیار ہو رہا ہے۔ جنگ کو ولادیمیر پوٹن کی جانب سے غیر ضروری تشدد سے تعبیر کیا جا رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ امریکہ کی کانگریس کے ایک رکن جوئے ولسن نے اس معاملے میں بھارت کے مؤقف پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت نے روسی ہتھیاروں کے لیے امریکہ پر روس کو ترجیح دی۔
سندیپن کے مطابق اس بیان سے واضح ہوتا ہے کہ دنیا بھارت کے بارے میں کیا سوچ رہی ہے۔یہ جنگ جتنا طول پکڑے گی بھارت کے لیے غیر جانب دار رہنا اتنا ہی مشکل ہوتا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ بھارت نے کہا ہے کہ یورپ روس سے خام تیل خرید رہا ہے اور جنگ کے بعد اس نے زیادہ تیل خریدا ہے لیکن بوچا میں ہلاکتوں کے بعد یورپ اپنی حکمتِ عملی پر نظرِ ثانی کر رہا ہے۔
ٹی ای تری مورتی نے اپنے بیان میں مزید کہا کہ یوکرین میں حالات میں کوئی نمایاں تبدیلی دکھائی نہیں دے رہی۔ سلامتی کی صورت حال مزید خراب ہوئی ہے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ عالمی برادری انسانی ضرورتوں پر مثبت انداز میں اپنی توجہ جاری رکھے گی۔
انہوں نے کہا کہ ہم یوکرین میں ضروری اشیا اور طبی ساز و سامان کی محفوظ فراہمی کی اپیل کی حمایت کرتے ہیں۔ انسانی امداد کی سخت ضرورتوں کے پیشِ نظر بھارت یوکرین اور اس کے پڑوس میں ضروری اشیا کی سپلائی کر رہا ہے۔