واشنگٹن —
بھارت کی سپریم کورٹ نے ہم جنس پرستی کو جرم قرار دینے سے متعلق اپنے گزشتہ ماہ کے فیصلے پر نظرِ ثانی کی اپیل مسترد کردی ہے۔
بھارت کی حکومت اور انسانی حقوق کی سات مختلف تنظیموں نے سپریم کورٹ کے 11 دسمبر کے فیصلے کے خلاف عدالت میں اپیلیں دائر کی تھیں جس کے تحت سپریم کورٹ نے ہم جنس پرستی پر پابندی سے متعلق نوآبادیاتی دور کے ایک قانون کو بحال کردیا تھا۔
منگل کو سامنے آنے والے فیصلے میں سپریم کورٹ نے قرار دیا ہے کہ 'انڈیا پینل کوڈ' کی دفعہ 377 میں تبدیلی کا اختیار صرف پارلیمنٹ کے پاس ہے جس کے تحت "خلافِ فطرت جنسی اختلاط" کو جرم قرار دیا گیا ہے۔
بھارت کے ضابطہ فوجداری میں یہ دفعہ اس وقت سے موجود ہے جب بھارت برطانیہ کی نو آبادی تھا۔ اس دفعہ کا اطلاق ہم جنس پرستی پر بھی کیا جاتا ہے اور اس کے مرتکب شخص کو دس سال تک کی قید ہوسکتی ہے۔
سنہ 2009ء میں ایک ریاستی ہائی کورٹ نے اس دفعہ کو "شخصی آزادی کے خلاف" قرار دیتے ہوئے غیر موثر قرار دے دیا تھا جس کےخلاف ہندووں، مسلمانوں اور عیسائیوں کی نمائندہ تنظیموں نے اس فیصلے کو بھارتی سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔
سپریم کورٹ کی جانب سے گزشتہ ماہ ہم جنس پرستی پر پابندی کو بحال کیے جانے کےخلاف بھارت کے مختلف شہروں میں ہم جنس پرستوں اور ان کے حقوق کے علمبرداروں کی طرف سے احتجاجی مظاہرے بھی ہوئے تھے۔
اپیلیں دائر کرنے والی تنظیموں نے سپریم کورٹ کے نئے فیصلے پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے دوبارہ اپیل دائر کرنے کا اعلان کیا ہے۔ درخواست گزاروں کے وکلا کے بقول اب عدالت سے اپیل کی سماعت کے لیے بڑا بینچ تشکیل دینے کا مطالبہ کیا جائے گا۔
دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کے علمبردار بھارت میں ایک محتاط اندازے کے مطابق تقریباً 25 لاکھ ہم جنس پرست موجود ہیں جن کی اکثریت مذہبی اور خاندانی روایات کی وجہ سے اپنے جنسی رجحان کو پوشیدہ رکھنے ہی میں عافیت جانتی ہے۔
بھارت کی حکومت اور انسانی حقوق کی سات مختلف تنظیموں نے سپریم کورٹ کے 11 دسمبر کے فیصلے کے خلاف عدالت میں اپیلیں دائر کی تھیں جس کے تحت سپریم کورٹ نے ہم جنس پرستی پر پابندی سے متعلق نوآبادیاتی دور کے ایک قانون کو بحال کردیا تھا۔
منگل کو سامنے آنے والے فیصلے میں سپریم کورٹ نے قرار دیا ہے کہ 'انڈیا پینل کوڈ' کی دفعہ 377 میں تبدیلی کا اختیار صرف پارلیمنٹ کے پاس ہے جس کے تحت "خلافِ فطرت جنسی اختلاط" کو جرم قرار دیا گیا ہے۔
بھارت کے ضابطہ فوجداری میں یہ دفعہ اس وقت سے موجود ہے جب بھارت برطانیہ کی نو آبادی تھا۔ اس دفعہ کا اطلاق ہم جنس پرستی پر بھی کیا جاتا ہے اور اس کے مرتکب شخص کو دس سال تک کی قید ہوسکتی ہے۔
سنہ 2009ء میں ایک ریاستی ہائی کورٹ نے اس دفعہ کو "شخصی آزادی کے خلاف" قرار دیتے ہوئے غیر موثر قرار دے دیا تھا جس کےخلاف ہندووں، مسلمانوں اور عیسائیوں کی نمائندہ تنظیموں نے اس فیصلے کو بھارتی سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔
سپریم کورٹ کی جانب سے گزشتہ ماہ ہم جنس پرستی پر پابندی کو بحال کیے جانے کےخلاف بھارت کے مختلف شہروں میں ہم جنس پرستوں اور ان کے حقوق کے علمبرداروں کی طرف سے احتجاجی مظاہرے بھی ہوئے تھے۔
اپیلیں دائر کرنے والی تنظیموں نے سپریم کورٹ کے نئے فیصلے پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے دوبارہ اپیل دائر کرنے کا اعلان کیا ہے۔ درخواست گزاروں کے وکلا کے بقول اب عدالت سے اپیل کی سماعت کے لیے بڑا بینچ تشکیل دینے کا مطالبہ کیا جائے گا۔
دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کے علمبردار بھارت میں ایک محتاط اندازے کے مطابق تقریباً 25 لاکھ ہم جنس پرست موجود ہیں جن کی اکثریت مذہبی اور خاندانی روایات کی وجہ سے اپنے جنسی رجحان کو پوشیدہ رکھنے ہی میں عافیت جانتی ہے۔