بھارت نے اپنے زیرِانتظام کشمیر میں جی 20 کے سیاحت سے متعلق گروپ کے اجلاس پر پاکستان کے اعتراض کو بے بنیاد اور گمراہ کن قرار دیا ہے۔نئی دہلی کا کہنا ہے کہ کشمیر پر اسلام آباد کو مداخلت کا بالکل حق نہیں۔
پاکستان نے بھارت کے زیرِانتظام کشمیر میں بیس بڑی عالمی معیشتوں کے اتحاد جی 20 کے سیاحت سے متعلق ورکنگ گروپ کے ایک اجلاس کے انعقاد پر اعتراض کیا تھا۔
پاکستان نے کہا تھا کہ جموں و کشمیر ایک متنازع علاقہ ہے جہاں اس طرح کا اجلاس منعقد کرنا یا تقریبات کا اہتمام کرنا کشمیر پر اقوامِ متحدہ کی قراردادوں، عالمی قوانین اور اقوامِ متحدہ کے چارٹر کی صریحاً خلاف ورزی ہے۔
واضح رہے کہ جی 20 کا یہ اجلاس آئندہ ماہ 23 مئی کو سرینگر میں منعقد ہوگا۔
بھارت نے پاکستان کے بیان پر کہا ہے کہ وہ اس مفروضے کو بالکل خاطر میں نہیں لاتا۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بھارت نے جی 20 کا یہ اجلاس اور چند دوسری تقریبات کا انعقاد جان بوجھ کر جموں و کشمیر میں کیا ہے تاکہ ریاست پر اس کے مؤقف کو بالواسطہ تائید و حمایت حاصل ہو کہ یہ ایک اٹوٹ انگ ہے۔
اس کے علاوہ تجزیہ کاروں کے مطابق بھارت لداخ کے مرکزی شہر لیہہ میں جی 20 کی میزبانی کی ایک تقریب منعقد کرکے اپنے ایک اور حریف ملک چین کو ایک مضبوط پیغام بھیجنا چاہتا ہے۔
سرینگر میں بین الاقوامی مندوبین کی کیا مصروفیات ہوں گی؟
حکام کے مطابق بین الاقوامی مندوبین میں جی 20 ممالک کے وزرائے سیاحت یا متعلقہ شعبے سے تعلق رکھنے والے نمائندے یا اعلیٰ عہدیدار شامل ہوں گے۔
ان کے بقول یہ مندوبین 22 مئی کو ایک خصوصی پرواز کے ذریعے نئی دہلی سے سرینگر پہنچیں گے۔ انہیں اسی روز سرینگر کی ڈل جھیل کی سیر کرائی جائے گی۔ اگلے روز وہ جھیل کے مشرقی کنارے پر واقع شیرِ کشمیر انٹرنیشنل کنوینشن سینٹر میں جی 20 ٹورزم ورکنگ گروپ کے ایک اہم اجلاس میں شرکت کریں گے۔
اس گروپ کا اسی طرح ایک اجلاس رواں برس فروری میں بھارتی ریاست گجرات کے علاقے رن آف کچھ میں منعقد کیا گیا تھا۔ یہ علاقہ اپنے محل وقوع کے اعتبار سے اہم ہے کیوں کہ یہ پاکستان کے صوبۂ سندھ کے جنوب مشرقی علاقے صحرائے تھر کے قریب واقع ہے۔
سیاحت سے متعلق جی 20 ورکنگ گروپ کا دوسرا اجلاس بھارتی ریاست مغربی بنگال کے سلی گوڑی کے مقام پر یکم سے تین اپریل تک منعقد ہوا تھا۔
مئی کے مہینے میں سری نگر میں ہونے والے اجلاس کے دوران توجہ کا مرکز فلم ٹورزم رہے گا جس کے فروغ کے لیے بھارت کے زیرِانتظام کشمیر کی انتظامیہ نے تین برس کے دوران کئی اقدامات کیے ہیں۔
حکام نے بتایا کہ ورکنگ گروپ کے اس اجلاس کے دوران رکن ممالک اور دیگر شرکا کو فلموں کی آؤٹ ڈور شوٹنگ کے لیے 'جنت نظیر' کہلائے جانے والے کشمیر کا انتخاب کرنے کی طرف راغب کرنے کی کوشش کی جائے گی۔
ان کے بقول مندوبین کو 24 مئی کو سیر و تفریح کے لیے سرینگر سے 51 کلومیٹر شمال مغرب میں واقع سیاحتی مقام گلمرگ کے جایا جائے گا اور اگلے روز وہ واپس دہلی لوٹیں گے۔ انہیں داچھی گام وائلڈ لائف پارک کی بھی سیر کرائی جائے گی جو مخصوص کشمیری ہرن ہانگل کا مسکن ہے۔
بھارت جی 20 کی اپنی میزبانی کے دوران گروپ کے نوجوانوں کے امور سے متعلق مشاورتی فورم وائی 20 کے دو اجلاس سرینگر اور لداخ کے درالحکومت لیہہ میں منعقد کرا رہا ہے۔
بھارتی حکومت کی جانب سے پانچ اگست 2019 کو کشمیر کی آئینی نیم خود مختاری ختم کرنے اور ریاست کو دو حصوں میں تقسیم کرکے اسے براہ راست وفاق کے کنٹرول کا علاقہ بنانے کے بعد جموں و کشمیر اور لداخ میں منعقد کی جانے والی یہ پہلی بڑی تقریبات ہوں گی جن میں بیرون ملک اور ایک فعال عالمی معیشتی گروپ سے وابستہ مندوبین شریک ہوں گے۔
پاکستان کو اعتراض کیوں ہے؟
پاکستان نے سرینگر اور لیہہ میں ان اجلاس کے فیصلے پر شدید نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اس طرح کے اقدامات کو یکسر مسترد کرتا ہے۔
پاکستان کا کہنا ہے کہ "جموں و کشمیرپاکستان اور بھارت کے مابین بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ تنازع ہے اور اس کے بقول یہ علاقہ1947 سے بھارت کےجابرانہ اور غیر قانونی قبضے میں ہے۔یہ تنازع گزشتہ سات دہائی سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ایجنڈے پربھی موجود ہے۔"
منگل کو اسلام آباد میں دفترِ خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ پاکستان بھارت کےجی 20 کےٹورزم ورکنگ گروپ کا اجلاس سرینگر میں منعقد کرنے کے فیصلے پر شدید غم و غصے کا اظہار کرتا ہے جبکہ وائی 20 کے مشاورتی فورم کے دو اجلاس سری نگر اور لیہہ میں کرانے کا اقدام پریشان کن ہے۔
ترجمان نے کہا کہ "بھارت کا یہ غیرذمہ دارانہ اقدام اس کی طرف سے جموں و کشمیر پر اپنے غیرقانونی قبضے کو دوام بخشنے کے اپنی خدمت آپ کےاقدامات کی تازہ کڑی ہے۔ ترجمان کے مطابق بھارت ایسا کرکے جموں کشمیر پر اقوامِ متحدہ کی قراردادوں اور یو این چارٹر کے اصولوں اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔ پاکستان ان اقدامات کی مذمت کرتا ہے۔"
جی 20 اہم کیوں ہے؟
جی 20 سال 1999 میں قائم ہوا تھا لیکن سن 09-2008 کےعالمی معاشی بحران کے دوران یہ عالمی سطح پر ایک قوت بن کر سامنے آیا جب اس نے پالیسی ردِ عمل کے سلسلے میں رابطہ کار ادارے کے طور پر کام کیا۔
بہت سے ماہرینِ اقتصادیات عظیم معاشی نقصان سے بچانے کا سہرا جی 20 کو دیتے ہیں۔
اقتصادی لحاظ سے دنیا کے 19 اہم ممالک اور یورپی یونین پر مشتمل یہ گروپ جی ڈی پی کے 80 فی صد، عالمی تجارت کے 75 فی صد اور عالمی آبادی کے 60 فی صد کی نمائندگی کرتا ہے۔
جی 20 کے اراکین میں ارجنٹائن، آسٹریلیا، برازیل، کینیڈا، چین، جرمنی، فرانس، بھارت، انڈونیشیا، اٹلی، جاپان، میکسیکو، روس، سعودی عرب، جنوبی افریقہ، جنوبی کوریا، ترکیہ، برطانیہ اور امریکہ شامل ہے جب کہ یورپی یونین بھی اس کا حصہ ہے۔
سرینگر میں منعقدہ جی 20 کے اس اجلاس میں شرکت کے لیے بھارت نے کئی بین الاقوامی اداروں اور غیر رکن ممالک کو بھی دعوت دی ہے جن میں مصر، بنگلہ دیش، موریشس، ہالینڈ، نائجیریا، عمان، سنگاپور، اسپین اور متحدہ عرب امارات شامل ہیں۔
بھارت 1999 سے ہی جی 20 کا رکن ہے۔ بھارت نے یکم دسمبر 2022 کو جی 20 کی صدارت سنبھالی تھی جو 30 نومبر 2023 تک رہے گی۔ اس سال ستمبر میں بھارت پہلی مرتبہ جی 20 کے سربراہی اجلاس کی میزبانی بھی کرے گا۔
جی 20 کی تقریبات جموں و کشمیر میں ہی کیوں؟
سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ نئی دہلی نے جی 20 کے ٹورزم ورکنگ گروپ کا اجلاس سرینگر اور وائی 20 کے مشاورتی گروپس کی بعض تقریبات سرینگر اور لیہہ میں کرانے کا فیصلہ کشمیر کے معاملے پر سفارتی محاذ پر پاکستان پر برتری حاصل کرنے کے لیے کیا ہے۔
ان کی رائے میں بھارت دنیا کو یہ پیغام دینا چاہتا ہے کہ اس نے پانچ اگست 2019 کو جو قدم اٹھایا تھا وہ کامیاب رہا۔
تجزیہ کارکہتے ہیں کہ سری نگر میں ان تقریبات کا انعقاد اور اس می بیرونی ممالک اور تنظیموں کی شرکت کو کشمیر پر بھارت کے موقف کی تائید سمجھا جائے گا اور نئی دہلی یہی چاہتا ہے۔
تجزیہ کار پروفیسر نور احمد بابا کہتے ہیں بھارت دنیا پر یہ باور کرانا چاہتا ہے کہ جموں و کشمیر اس کا ایک اٹوٹ حصہ ہے جہاں پانچ اگست 2019 کو اٹھائے گئے اقدام کے نتیجے میں سیاسی بد امنی کا خاتمہ ہوا اور اب علاقے میں امن و خوشحالی کا دور دورہ ہے۔
ان کے بقول یہ ثابت کرنے کے لیے ان مقامات کی تزئین و آرائش پر خطیر رقم خرچ کی جا رہی ہے جہاں مندوبین قیام یا دورہ کریں گے۔
ادھر کشمیر کے ایک اعلیٰ عہدے دار ڈویژنل کمشنر وجے کمار بدھوری نے منگل کو متعلقہ افسران کو تزئین وآرائش کا کام دس دن میں مکمل کرنے کا الٹی میٹم دیا ہے جب کہ حکومت نے ان علاقوں سے جہاں سے مندوبین کا گزر ہوگا وہاں سے سیکیورٹی فورسز کے بنکر ہٹانے انہیں دوسرے مقامات پر منتقل کرنے کا حکم دیا ہے۔
تقریبات کے لیے غیر معمولی اقدامات
حکام کے مطابق ورکنگ گروپ اور دیگر تقریبات کی حطاظت کے لیے غیر معمولی انتظامات کیے جا رہے ہیں۔ اطلاعات ہیں کہ سیکیورٹی فورسز کے خصوصی دستے جن میں کمانڈوز اور شوٹرز شامل ہوں گے سرینگر اور گلمرگ میں تعینات کیے جائیں گے ۔ کسی ناخوشگوار واقعے سے بچنے کے لیے ڈرون کیمرے، اینٹی ڈرون آلات، نگرانی والے جدید سامان کا استعمال کیا جائے گا۔
جموں سے شائع ہونے والے انگریزی روزنامے 'دی ڈیلی ایکسلشئر' نے خبر دی ہے کہ نئی دہلی سے خصوصی فورسز اور اینٹی ڈرون ٹیکنالوجی کو سرینگر لایا جا رہا ہے جب کہ جی 20 اجلاسوں اور تقریبات کے دوران سرینگر، گلمرک اور چند دوسرے مقامات پر نیم فوجی دستوں کی کمک بٹھائی جا رہی ہے۔
اخبار کے مطابق ان علاقوں کو جہاں اقلیت سے تعلق رکھنے والے کنبے اور غیرمقامی رہائش پذیر ہیں وہاں سیکیورٹی فورسز کا گشت بڑھایا جائے گا۔ حساس علاقوں میں باقاعدگی کے ساتھ تلاشی آپریشن شروع کیےجائیں گے تاکہ علحیدگی پسند عسکریت پسندوں کی ممکنہ پُرتشدد کارروائیوں کو انجام دینے سے پہلے سے روکا جاسکے۔
اس معاملے پر بھارت کی وزارتِ داخلہ نے نئی دہلی میں ایک خصوصی اجلاس بلا لیا ہے۔ بدھ کو ہونے والے اجلاس میں جموں و کشمیر کے سربراہِ انتظامیہ لیفٹننٹ گورنر منوج سنہا، چیف سیکریٹری ارون مہتہ ، پولیس سربراہ دلباغ سنگھ اور انتظامی، پولیس اور خفیہ اداروں کے کئی دوسرے افسران شرکت کررہے ہیں۔
'پاکستان کو سفارتی نقصان کا ادراک ہے'
پرفیسرنور احمد بابا کہتے ہیں جی 20 اہم ممالک کا گروپ ہے جس میں سے چند ممالک اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مستقل رکن ہیں جب کہ چند اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کے رکن ممالک ہے جنہوں نے کشمیر پر ایک مضبوط مؤقف اختیار کر رکھا ہے۔ البتہ بھارت نے اس پر بارہا تنقید کرتے ہوئے اسے مسترد کیا ہے۔
ان کے بقول بھارت سرینگر اور لیہہ میں اجلاس اور تقریبات کرا کر جموں و کشمیر پر اپنی پوزیشن عالمی سطح پر بھی تسلیم کرانا چاہتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کا اعتراض اور تنقید اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ وہ صورتِ حال سے غافل نہیں ہے بلکہ اسے سفارتی سطح پر پہنچنے والے نقصان کا ادراک ہے۔
واضح رہے کہ بھارت میں پاکستان کے سابق ہائی کمشنر عبدالباسط نے اپنے ملک کی قیادت کو مشورہ دیا تھا کہ وہ اس سلسلے میں فوری طور پر انسداد کی حکمتِ عملی اختیار کرے اور اس کا آغاز سعودی عرب، ترکیہ اور انڈونیشیا جیسے دوست ممالک کے ساتھ رابطہ کرنے سے ہونا چاہیے۔
انہوں نے کہا تھا کہ یہ تینوں ملک 57 اسلامی ممالک کی تنظیم او آئی سی کے رکن بھی ہیں جس کا کشمیر کے تنازعے پر مؤقف واضح اور سخت ہے۔ اس پس منظر میں سعودی عرب، ترکیہ اور انڈونیشیا کو اعتماد میں لے کر بھارت کو یہ کلہوایا جاسکتا ہے کہ اگر وہ جی20 کے اجلاس یا تقریبات متنازع جموں و کشمیر میں منعقد کراتا ہے تو وہ ان میں شرکت نہیں کریں گے ۔