بھارتی وزارتِ دفاع نے اعلان کیا ہے کہ وہ فوجی ساز و سامان کی 101 اشیا کی درآمد پر پابندی عائد کرے گی تاکہ یہ سامان ملکی کمپنیوں میں بنایا جائے اور بھارت کو دفاعی شعبے میں خود کفیل بنایا جا سکے۔
وزیرِ دفاع راج ناتھ سنگھ کے مطابق اس پابندی کا نفاذ رواں سال دسمبر سے ہو گا جو 2025 تک بتدریج جاری رہے گا۔
نئی دہلی کے تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اس سے ملک میں روزگار تو بڑھے گا لیکن ہتھیاروں کی قیمتوں اور دفاعی اخراجات میں بھی اضافہ ہو جائے گا۔
وزیرِ اعظم نریندر مودی نے مئی میں بھارت کی خود انحصاری کو فروغ دینے کی مہم 'سیلف ریلائنٹ انڈیا' کا اعلان کیا تھا۔ حکام کا کہنا ہے کہ دفاعی ساز و سامان کی منتخب اشیا کی درآمد پر پابندی کا فیصلہ اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔
وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ کے مطابق جن اشیا کی درآمد پر پابندی عائد کی جائے گی، ان کی تعداد میں وقتاً فوقتاً اضافہ کیا جائے گا اور ان پر نظرِ ثانی بھی کی جائے گی۔
بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی نے جب 'سیلف ریلائنٹ انڈیا' کی مہم کا اعلان کیا تھا تب بھی یہ کہا گیا تھا کہ ہتھیاروں کی درآمد پر پابندی لگائی جائے گی اور انہیں مقامی طور پر تیار کیا جائے گا۔ تاکہ کرونا کی عالمی وبا سے ملکی معیشت کو جو نقصان پہنچا ہے، اس کا ازالہ کیا جا سکے۔
ایک اندازے کے مطابق آئندہ سات برسوں کے دوران بھارت کی ملکی اسلحہ ساز کمپنیوں کو 53 ارب ڈالر کے ہتھیار بنانے کے آرڈرز دیے جا سکتے ہیں۔
بھارتی حکام نے جن اشیا کی درآمد پر پابندی کا فیصلہ کیا ہے، ان میں مختلف اقسام کے گولہ بارود، ریڈار، آرٹیلری گنز، اسالٹ رائفلز، ٹرانسپورٹ ایئرکرافٹ اور ہیلی کاپٹر بھی شامل ہیں۔
اس معاملے پر بھارت میں ایک سینئر دفاعی تجزیہ کار اور سابق لیفٹیننٹ جنرل شنکر پرساد نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے حکومت کے اعلان کا خیر مقدم کیا اور کہا کہ یہ اعلان کئی سال قبل کیا جانا چاہیے تھا۔ اس اقدام سے ملکی کمپنیوں کو بہت فائدہ ہو گا۔
شنکر پرساد نے کہا کہ بھارت کی اسلحہ ساز کمپنیوں کے پاس اتنی اہلیت ہے کہ وہ ان ہتھیاروں کو بنا سکیں۔ اس سے نہ صرف بھارت کو بلکہ آس پاس کے ملکوں کو بھی فائدہ پہنچے گا۔
انہوں نے بتایا کہ بھارت میں آرٹیلری گنز بننا شروع ہو گئی ہیں۔ متعدد ملکی کمپنیاں اس حکومتی فیصلے سے فائدہ اٹھا سکتی ہیں۔
شنکر پرساد کے خیال میں حکومت کے اس فیصلے سے بھارت میں روزگار کے مواقع بڑھیں گے اور بھارت دفاعی شعبے میں خود انحصار ہو گا۔
لیکن ایک دوسرے سینئر تجزیہ کار پروین ساہنی کے نزدیک حکومت کے اس اعلان کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ پروین ساہنی نے کہا کہ بھارت میں جو اشیا بنائی جائیں گی، ان میں استعمال ہونے والے آلات بیرونِ ملک سے ہی منگانا پڑیں گے۔ لہٰذا ہم یہ نہیں کہہ سکیں گے کہ وہ ہمارے ہتھیار ہیں۔
انہوں نے اس نکتے سے اتفاق کیا کہ اس پالیسی سے روزگار میں اضافہ ہو گا لیکن ان کے بقول جو اشیا بھارت میں بنائی جائیں گی، ان کی قیمت بڑھ جائے گی اور اس کے ساتھ دفاعی اخراجات میں بھی اضافہ ہو گا۔
پروین ساہنی نے مزید کہا کہ پہلے جو کام "میک اِن انڈیا" کے نام سے ہوتا تھا وہ اب "سیلف ریلائنٹ انڈیا" کے نئے نام سے ہو گا۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔
بعض دیگر تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ حکومت اس قدم سے ملکی معیشت کو سہارا دینا چاہتی ہے لیکن وہ اس میں کتنی کامیاب ہو گی، اس کا اندازہ بعد میں ہو گا۔
خیال رہے کہ بھارت دفاعی ہتھیاروں پر خطیر رقوم خرچ کرنے والے ملکوں میں شامل ہے۔
'اسٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ' کے ایک مطالعے کے مطابق بھارت گزشتہ سال امریکہ اور چین کے بعد سب سے زیادہ ہتھیار خریدنے والا تیسرا بڑا ملک تھا۔