بھارت اور پاکستان کے فوجی اخراجات میں ایک ایسے وقت میں اضافہ ہو رہا ہے جب دونوں طرف غربت ڈیرے ڈالے ہوئے ہے، بے روزگاری ہے، طبی اور تعلیمی سہولتوں کی کمی ہے اور شہریوں کے جان و مال کے تحفظ کی صورت حال بھی کوئی مثالی نہیں۔
آنے والے دنوں میں کرونا کی وبا کے سبب انتہائی غیر یقینی صورت حال پیدا ہوگی، نہیں معلوم دنیا، خاص طور پر غریب اور ترقی پذیر ممالک کی معیشتیں کیا رخ اختیار کرتی ہیں۔
سوئیڈن کے دارالحکومت اسٹاک ہوم کے انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹیٹیوٹ نے کے مطابق، امریکہ اور چین کے بعد بھارت دفاعی اخراجات کرنے والا دنیا کا تیسرا بڑا ملک بن گیا ہے۔ دو ہزار اٹھارہ کے مقابلے میں دو ہزار انیس کے دوران بھارت کے دفاعی اخراجات میں چھ اعشاریہ آٹھ فیصد اضافہ ہوا ہے اور یہ اخراجات اکہتر ارب ڈالر تک پہنچ گئے ہیں۔
پاکستان کے بارے میں رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سال دو ہزار دس سے دو ہزار انیس کے نو برسوں کے دوران اس کے دفاعی اخراجات میں ستر فیصد اضافہ ہوا ہے اور فوجی بجٹ دس اعشاریہ تین ارب ڈالر تک پہنچ گیا ہے۔
دونوں ملکوں میں تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ جنگی ساز و سامان میں اپنے حریف پر برتری کے حصول کی کوشش کا رجحان پوری دنیا میں نظر آتا ہے اور دفاعی بجٹ میں اضافے کا تعلق اس بات سے ہے کہ حریف ملک ہتھیاروں کے حصول کی دوڑ میں کتنا آگے جا رہا ہے۔
اسلام آباد نیشنل ڈیفینس یونیورسٹی کی اسما شاکر خواجہ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ فوجی ساز و سامان کے حصول کے سلسلے میں آج کل دنیا بھر میں باہمی انحصار کی صورت حال پائی جاتی ہے اور یہی معاملہ برصغیر اور اس سے ملحقہ خطوں کا بھی ہے۔
اسما شاکر خواجہ نے کہا کہ چین یہ دیکھتا ہے کہ امریکہ کتنا آگے جا رہا ہے وہ اس تناسب سے فوجی اخراجات بڑھاتا ہے۔ بھارت چین کے بڑھتے ہوئے دفاعی اخراجات کے پیش نظر تیاری کرتا ہے اور پاکستان بھارت کی تیاریوں کے پیش نظر اپنے دفاعی اخراجات بڑھاتا ہے۔
لیکن، انہوں نے کہا کہ پاکستان کے سلسلے میں دو باتیں پیش نظر رکھنی چاہئیں۔ اوّل تو SPRI کی رپورٹ میں جس اضافے کا حوالہ دیا گیا ہے وہ نو برس کے دوران ہوا ہے، جبکہ بھارت کے دفاعی بجٹ کا اضافہ ایک برس کے دورانیے کا ہے۔
دوسرے، پاکستان کو اپنے دفاعی بجٹ کو بناتے ہوئے اپنی مشرقی اور مغربی دونوں سرحدوں پر درپیش خطرات کو مد نظر رکھنا ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ اسے اندرون ملک ابھی بھی کسی حد تک دہشت گردی کا سامنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کی دفاعی حکمت عملی کم سے کم قابل بھروسہ دفاع کی بنیاد پر بنتی ہے، جیسے بھارت اگر رافیل طیارے حاصل کرتا ہے یا امریکہ سے اسے جدید ہتھیار ملتے ہیں تو وہ ایسے طیاروں یا ہتھیاروں کا حصول چاہے گا جن سے وہ رافیل طیاروں یا دوسرے ہتھیاروں کے خلاف اپنا دفاع کر سکے۔ انہوں نے کہا کہ دوسرے الفاظ میں آپ کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان کو طاقت کا توازن قائم رکھنے کے لئے اپنے دفاعی اخراجات میں اضافہ کرنا پڑتا ہے۔
ادھر، ممتاز بھارتی صحافی اور تجزیہ کار سنتوش بھارتیہ نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہتھیاروں کی دوڑ صرف بھارت اور پاکستان کے درمیان ہی نہیں ہے، بلکہ یہ رجحان پوری دنیا میں نظر آتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت دونوں ملکوں میں یہ صورت حال ہے کہ یہ جانتے ہوئے بھی کہ دستیاب وسائل کو عوامی فلاح و بہبود کے کاموں پر لگانے کی ضرورت ہے۔ انہیں فوجی امور پر لگایا جا رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس وقت دونوں ملکوں میں صورت حال یہ ہے کہ یہ ملک تین گروہوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ ایک جانب حکومتیں ہیں، دوسری جانب میڈیا ہے جو اپنے الگ ہی ایجنڈے پر کام کرتا ہے؛ اور تیسری جانب عوام ہیں جن کا کسی کو اتنا خیال نہیں ہے جتنا ہونا چاہئیے۔ اور بلا شبہ وسائل ان ہی پر خرچ ہونے چاہئیں۔
انہوں نے کہا کہ بھارت کے لئےچین کے خلاف اپنا دفاع کرنا اس کی مجبوری ہے؛ جب کہ انہوں نے کہا کہ یہ دوڑ پوری دنیا میں جاری ہے۔
سنتوش بھارتیہ کا کہنا تھا کہ صورتحال تبدیل ہو گی، کیونکہ کرونا کے بعد کے دور میں بگڑتی ہوئی معاشی صورت حال میں ایک بار پھر ورلڈ آرڈر تبدیل ہو گا اور دیکھنا یہ ہے کہ اس نئے ورلڈ آرڈر میں کون سپر پاور بن کر ابھرتا ہے۔ اور اس کے بعد ہی یہ کہا جا سکے گا کہ ہتھیاروں کی اس دوڑ کا سلسلہ انسانیت کی تباہی پر منتج ہوگا یا تعمیر کی کوئی صورت نکل سکے گی۔