یہ توقع کی جا رہی ہے کہ بھارت اور امریکہ کے درمیان پچھلے دو سال کے دوران اسٹریٹیجک أمور میں جو گہری شراکت داری قائم ہوئی تھی، وہ ڈونلڈ ٹرمپ کے صدارتی دور میں بھی جاری رہے گی۔
تاہم بھارتی تجزیہ کار اور مبصروں کا کہنا ہے کہ یہ خدشات موجود ہیں کہ بھارت کا مشہور زمانه انفارمیشن ٹیکنالوجی کا شعبہ اور بھارت کو مصنوعات سازی کے ایک مرکز میں تبدیل کرنے کی وزیراعظم نریندر مودی کی توقعات کو دھچکہ لگ سکتا ہے اگر منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنی ان پالیسیوں پر عمل درآمد کے لیے آگے بڑھتے ہیں جن کے بارے میں وہ اپنی انتخابي مہم میں وعدے کرتے رہے ہیں، یعنی ملک میں داخلے پر سخت پابندیاں اور روزگار کے مواقعوں کو امریکہ واپس لانا۔
امریکہ کے لیے ایک سابق بھارتی سفیر للت مان سنگھ کہتے ہیں کہ جب انتخابات کی گرد بیٹھے گی تو میرا نہیں خیال کہ بھارت کو ٹرمپ کی صدرات کے دوان شکایت کا کوئی موقع ملے گا۔
انہوں نے مزید کہا کہ مودی نے پاکستان کو سرحد پار دهشت گردی میں اس کی مبینہ حمایت کی بنا پر سفارتی لحاظ سے تنہا کرنے کے عزم کا اظہار کیا ہے، اور انہیں مسڑ ٹرمپ کی جانب سے مزید حمایت حاصل ہونے کی توقع ہوگی، جو اپنی انتخابي مہم کے دوران دهشت گردی کے خلاف سخت موقف دیتے رہے ہیں۔ بھارت اسلام آباد پر یہ الزام لگاتا ہے کہ وہ بھارت میں دهشت گردی کو ہوا دینے والے اسلام عسکریت پسند گروپس کی حمایت کرتا ہے۔ جب کہ پاکستان اس الزام کو سختی سے مسترد کرتا ہے۔
مان سنگھ کہتے ہیں کہ ہماری توقعات یہ ہیں کہ دهشت گردی کے حوالے سے ٹرمپ دور میں چیزیں مزید ہمارے حق میں جا سکتی ہیں۔ میرا خیال ہے کہ وہ پاکستان پر دباؤ ڈالنے کے سلسلے میں اپنے پیش رو کے مقابلے میں مزید ایک قدم آگے جائیں گے، کیونکہ امریکہ کی تمام سابقه انتظامیوں نے درست چیزیں کہیں تھیں، لیکن وہ پاکستان پر دباؤ ڈالنے کے معاملے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کرتے رہے کیونکہ اس کا اثر أفغانستان میں جاری ان کی پالیسیوں پر پڑ سکتا تھا۔ میرا خیال ہے کہ ٹرمپ ان سے آگے جا سکتے ہیں۔
لیکن اس بارے میں کہیں زیادہ غیر یقینی صورت حال پائی جاتی ہے کہ وسیع تر ایشیائی پالیسیوں پر ٹرمپ انتظامیہ کس طرح اثر انداز ہوگی۔ ایشیا میں چین کے بڑھتے ہوئے دعوؤں کے بارے میں خدشات پائے جاتے ہیں اور وہ بھارت کی ہمسائیگی میں اپنے اثرورسوخ میں اضافہ کررہا ہے، جس سے کم ازکم جزوی طور پر نریندر مودی کو واشنگٹن کے بہت قریب جائے میں روایتی ہچکچاہٹ کو ایک جانب رکھتے ہوئے فوری طور پر امریکہ کے ساتھ اپنے فوجی تعاون میں اضافہ کرنا پڑا۔
ٹرمپ کے عہد میں بھارت امریکہ رابطوں کو مزید بہتر بنانے کے لیے مودی نے منتخب صدر کو انتخابات میں کامیابی کے بعد ٹیلی فون کیا۔ اپنی فون کال میں انہوں نے یہ توقع ظاہر کی کہ دونوں ملک چٹان کی طرح مضبوط بھارت امریکہ رابطے قائم کرنے کا عمل جاری رکھیں گے۔ اور انہوں نے باہمی تعلقات کو نئی بلندیوں پر لے جانے کے بارے میں ٹوئٹ کیا۔
لیکن نئی دہلی میں غیر ملکی پالیسی أمور کے ایک تجزیہ کار جے ایڈوا راندے کہتے ہیں کہ اگر امریکہ خود کو اپنے علاقے تک زیادہ محدود کرنے پالیسی اختیار کرتا ہے تو ایشیا بحرالکاہل کے جغرافیائی اسٹریٹیجک منظر نامے میں نمایاں تبدیلی آ سکتی ہے۔ ان کا اشارہ جنوبی بحیرہ چین میں اپنی موجودگی کم کرنے کے ممکنہ امکان کی جانب تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ مسڑ ٹرمپ یہ کہہ چکے ہیں کہ وہ فوجی حوالے سے ایشیا بحرالکاہل میں امریکہ کو مصروف رکھنا نہیں چاہتے، اس کا حقیقتا مطلب یہ ہے کہ وہ چین کو جگہ دینا چاہتے ہیں۔
جب کہ دوسری جانب نئی دہلی اس خطے میں امریکی سرگرمیوں میں اضافہ دیکھنے کا خواہش مند ہے۔
خارجہ پالیسی سے کہیں بڑھ کر، بھارت کے لیے کہیں زیادہ غیر یقینی صورت حال کا تعلق اس چیز سے ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ ایک ایسے وقت میں اپنی اقتصادی اور تجارتي پالیسیوں کا کس انداز میں تعین کرتی ہے جب نئی دہلی یہ چاہتا کہ امریکی کمپنیاں اس کی معیشت کو ترقی دینے کے لیے ملک میں زیادہ سرمایہ کاری اور کاروبار لائیں۔
اگر امیگریشن اور آؤٹ سورسنگ کے بارے میں ٹرمپ کی انتخابي تقریریں اور شعله بیانیاں امریکہ کی پالیسیوں میں ڈھلتی ہیں تو بھارت کے 150 ارب ڈالر مالیت کے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے کو، جو پہلے ہی سست روی کا مقابلہ کررہا ہے، مزید مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ امریکہ اپنی ضرورت کا 60 فی صد سافٹ ویئر بھارت سے برآمد کرتا ہے اور وہاں لاکھوں ملازمتوں پر انحصار کرتا ہے۔
اس سلسلے میں سب سے زیادہ خطرہ H-1B ویزے کو ہے، جو غیر ملکی ماہرین کو امریکہ میں کام کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ اور اس ویزے کو بہت بڑے پیمانے پر بھارتی سافٹ ویئر کمپنیاں استعمال کرتی ہیں۔ H-1B ویزوں میں بھارت کا حصہ بہت زیادہ ہے، 2014 میں اس سلسلے میں جاری ہونے والے ویزوں میں دو تہائی سے زیادہ بھارتیوں کے استعمال میں آئے تھے۔
انتخابات کے دوران ٹرمپ کے امریکی کارکنوں اور سستی لیبر کے پروگرام کے استعمال کے متعلق بیانات نے ان خدشات کو جنم دیا ہے کہ اس کی انتظامیہ انہیں محدود کر سکتی ہے یا اس کی قیمت میں اضافہ کر سکتی ہے۔