بھارت کے آرمی چیف جنرل منوج مکند نرونے نے کہا ہے کہ مشرقی لداخ اور شمالی محاذ پر چینی فوج کی نقل و حرکت بڑھ رہی ہے جس پر اُنہیں تشویش ہے۔
لداخ میں بھارتی خبر رساں ادارے 'اے این آئی' سے بات کرتے ہوئے جنرل منوج مکند نرونے نے کہا کہ گزشتہ چھ ماہ کے دوران صورتِ حال معمول کے مطابق ہے۔
تاہم میڈیا رپورٹس میں 'اے این آئی' کے حوالے سے اطلاع دی گئی ہے کہ جنرل منوج مکند نرونے نے یہ بھی کہا ہے کہ ہم چینی فوجیوں پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں، ہمیں جو بھی اطلاعات موصول ہوتی ہیں اسی کی بنیاد پر اقدامات کر رہے ہیں۔
ان کے بقول فی الحال ہم کسی بھی صورتِ حال سے نمٹنے کے لیے مکمل طور پر تیار ہیں۔
رپورٹس کے مطابق بھارتی آرمی چیف نے اس خدشے کا بھی اظہار کیا ہے کہ کسی بھی علاقے میں چین کی مبینہ جارحیت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
خیال کیا جا رہا ہے کہ آئندہ ہفتے دونوں ملکوں کے درمیان مشرقی لداخ میں تعطل کو دور کرنے کے لیے بات چیت کا ایک اور دور ہو سکتا ہے۔
جنرل منوج مکند نرونے نے مزید کہا کہ تمام تنازعات کو حل کرنا ہو گا۔ انہیں امید ہے کہ وہ اکتوبر کے دوسرے ہفتے میں بات چیت کریں گے اور متنازعہ علاقوں سے فوجیوں کی واپسی کے سلسلے میں اتفاق رائے پر پہنچیں گے۔
یاد رہے کہ جنرل نرونے نے جمعے کو مشرقی لداخ میں فوجی تیاریوں کا جائزہ لیا تھا۔
بھارتی فوج کے ایک ترجمان نے کہا ہے کہ جنرل نرونے نے اگلی چوکیوں کا دورہ کیا تھا جہاں انہیں موجودہ صورتِ حال پر بریفنگ دی گئی۔ انہوں نے جوانوں سے تبادلۂ خیال بھی کیا۔
رپورٹس کے مطابق فوج نے لداخ میں پہلی 'کے۔9 خودکار ہاوٹزر رجمنٹ' کو چین کی سرحد پر تعینات کیا ہے۔ جہاں سے 50 کلو میٹر دور تک دشمن کو ہدف بنایا جا سکتا ہے۔
آرمی چیف نے لداخ کے لیفٹننٹ گورنر رادھا کرشن ماتھر سے بھی ملاقات کی اور اس علاقے میں سیکیورٹی کی صورت حال پر تبادلۂ خیال کیا۔
'بھارت کا چینی علاقوں پر ناجائز قبضہ لداخ میں کشیدگی کی اصل وجہ ہے'
رپورٹس کے مطابق چین کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے بدھ کو بھارت پر الزام لگایا تھا کہ بھارت کی جانب سے چینی علاقوں پر ناجائز قبضہ دونوں ملکوں کے درمیان لداخ میں کشیدگی کی اصل وجہ ہے۔
ترجمان نے کہا کہ بھارت کافی دنوں سے پیش قدمی اور سرحد کے پار غیر قانونی طور پر چینی علاقوں پر قبضے کی پالیسی پر گامزن ہے۔
بھارت کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان ارندم باگچی نے جمعرات کو ایک نیوز بریفنگ میں چین کے الزام کی تردید کی اور کہا کہ چین ایک عرصے سے سرحدی علاقوں میں جوانوں اور ہتھیاروں کی تعیناتی کر رہا ہے اور اس کے جواب میں بھارتی مسلح فورسز نے مناسب اقدامات اٹھائے ہیں۔
انہوں نے الزام عائد کیا کہ چین کی جانب سے لائن آف ایکچوئل کنٹرول (ایل اے سی) کو یکطرفہ طور پر تبدیل کرنے کی وجہ سے کشیدگی پیدا ہوئی ہے اور امن و سلامتی کو بھی نقصان پہنچا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ چین کا الزام بے بنیاد ہے اور بھارت یہ توقع رکھتا ہے کہ وہ باقی ماندہ تنازعات کو جلد از جلد حل کرنے کے لیے دوطرفہ معاہدوں کی مکمل پابندی کرے گا۔
دریں اثنا میڈیا رپورٹس کے مطابق 100 سے زائد چینی جوان 30 اگست کو ریاست اتراکھنڈ کے باراہوتی علاقے میں ایل اے سی عبور کر کے بھارتی علاقے میں داخل ہوئے تھے۔
میڈیا رپورٹس میں کہا گیا تھا کہ چینی جوان بھارتی علاقے میں پانچ کلو میٹر تک داخل ہوئے تھے۔ تاہم حکومت کی جانب سے اس کی تصدیق یا تردید نہیں کی گئی۔
رپورٹس کے مطابق چینی جوانوں نے علاقے میں ایک پُل سمیت بنیادی ڈھانچے کو نقصان پہنچایا ہے اور وہ وہاں کم از کم تین گھنٹے تک رہے۔
مقامی رہائشیوں نے انتظامیہ کو اس کی اطلاع دی جس کے بعد فوج اور انڈو تبت پولیس فورس نے اپنی گشتی ٹیمیں وہاں بھیجیں۔